پاکستان کی انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی رہنماؤں نے 12 جون کو سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین پر سندھ پولیس کی جانب سے ان پر تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو آمرانہ سوچ قرار دے دیا اور کہا کہ بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ عورتوں کے حقوق کو اولین ترجیح دی مگر آج پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں خواتین پر اس طرح کا تشدد بے نظیر کے سیاسی نظریات کے منافی ہے۔
پیر روز کے روز صو بہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی کے پریس کلب میں شیما کرمانی، عظمیٰ نورانی، مہناز رحمان، سارہ زمان، ساجدہ بلوچ اور نغمہ شیخ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا جمہوری حق ہے۔ پولیس کی جانب سے فورس کا بے دریغ استعمال بنیادی جمہوری حقوق کی راہ میں رکاوٹ ہے۔رہنماؤں نے پولیس کی بدمعاشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ محض انکوائری کمیٹی بناکر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں بلوچ عورتوں پر بہیمانہ تشدد جمہوری رویے کے منافی ہے۔ ہر شہری کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ ان کی آئینی اور قانونی حق ہے۔انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ یہ ماورائے قانون ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی عمل کررہے ہیں۔انہوں نے کراچی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔