مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگی کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4688 دن ہوگئے اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں آغا زبیر شاہ، جلال خان کاکڑ، نور آغا اور دیگر شامل تھے۔اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قلات اور خاران خاران کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز کی جانب سے فوجی بر بریت جاری ہے، جس سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے،پاکستانی ریاست کی جانب سے جبری گمشدگیوں اور بلوچ نسل کشی اضافہ ہو گیا ہے،
کراچی میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین پچھلے چھ دنوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے مسلسل احتجاج پہ بیٹھے ہیں، ان کو حسب دستور ملکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مکمل نظر انداز کر رہا ہے، انکے پیاروں کو پی پی پی کی سندھ حکومت کی مدد سے کراچی رینجرز، سی ٹی ڈی اور خفیہ ایجنسیوں کے نے اٹھا کر جبری لاپتہ کر دیا ہے، ان کا ایک آئینی مطالبہ ہے کہ انکو پیاروں کو منظر عام پر لایا جائے، کراچی کے مختلف علاقوں سے بلوچوں کی جبری گمشدگیوں میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ کوئٹہ سے گزشتہ دنوں جبری لاپتہ کیے گئے چار طلبائکے لواحقین انکے جبری گمشدگی پہ سخت پریشان ہیں، انکی بازیابی کیلئے مہم میں حصہ لیں اور تمام بلوچوں کی جبری گمشدگی اور انکی بازیابی کیلئے لواحقین کا ساتھ دیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالی ادارے اور میڈیا ہاؤسز بلوچ جبری گمشدگیوں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کے سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ ہیں، انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن افسوس ہے کہ سب نے آنکھیں بند کرکے مجرمانہ خاموشی اختیار کیا ہوا ہے،
ہماری مائیں بہنیں بچے جب تک سڑکوں پہ گھسیٹے نہیں جاتے ہیں تب تک ہماری نیوز ہی نہیں چلتی ہے نا الیکٹرانک میڈیا پہ کوئی سلائیڈ.
ہم میڈیا کے تمام ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے اور انسانی حقوق کے تنظیموں سے ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی مجرمانہ خاموشی توڑ کر بلوچستان اور کراچی سے جبری گمشدگیوں کے خلاف ہماری آواز بنیں اور ہمارے پر امن احتجاج کو دنیا کے سامنے لانے میں مدد کریں۔