افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے اورامریکہ کے انخلا کے بعد پاکستان سمیت پڑوسی ملکوں میں ہیروئن اور کرسٹل میتھ (آئس) جیسی خطرناک منشیات کی سمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر بالعموم اور ضلع پونچھ بالخصوص خطرناک منشیات کے گڑھ بنتے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں مہنگائی بڑھ رہی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر انتہائی مہنگی تصور کی جانیوالی ان خطرناک منشیات کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے پونچھ کے علاقے میں یہ منشیات معاشرے کی وسیع تر پرتوں کو اپنا شکار بناتی جا رہی ہیں۔اعلیٰ تعلیمی اداروں سے سکولوں تک خطرناک منشیات کی سرائیت ہوتی جا رہی ہے۔ نوجوان بڑی تعداد میں خطرناک منشیات کا شکار ہو کر جرائم اور پرتشدد سرگرمیوں سے انتہا پسندی کی جانب تیزی سے راغب ہو رہے ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے منشیات کے خلاف ایک خصوصی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک کی جانیوالی کارروائیوں میں چرس اور ہیروئن کے پکڑے جانے کی رپورٹس تو منظر عام پر آئی ہیں، لیکن سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اور خطرناک ترین سمجھی جانے والی آئس کے پکڑے جانے کی ایک کارروائی بھی ابھی تک رپورٹ نہیں ہوئی ہے۔
آئس کیا ہے اور کہاں پیدا ہوتی ہے؟
آئس پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ’میتھ ایمفٹامین‘ یا ’ایفیڈرین‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتی ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے، جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے انجیکشن کے ذریعے سے بھی جسم میں اتارا جاتا ہے۔
ایفیڈرین پیناڈول، پیراسٹامول، ویکس اور نزلہ زکام کی ادویات میں استعمال کی جاتی ہے۔ ادویات کیلئے استعمال ہونے والی ایفیڈرین
سے تیار کئے جانے کے علاوہ مارکیٹ سے زائد المعیاد ادویات حاصل کرتے ہوئے ان سے ایفیڈرین اور ڈی ایکس ایم نکال کر ان سے آئس ڈرگ تیار کی جاتی ہے۔
تاہم ایفیڈرین کی پیداوار اور اسے بطور کرسٹل میتھ (آئس) تیار کر کے نشہ آور منشیات کے طور پر فروخت کرنے کے عمل میں بے تحاشہ اضافہ افغانستان میں پیدا ہونے والے ایک پودے ’ایفیڈرا‘ کے ذریعے آئس کی تیاری کی وجہ سے ہوا ہے۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایفیڈرا کو کرسٹل میتھ میں تبدیل کرنے کے چھوٹے کارخانے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ماضی میں طالبان کے زیر اثر علاقوں میں یہ کارخانے سیکڑوں کی تعداد میں تھے، جو طالبان کی آمدن کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ تاہم طالبان کے اقتدار کے بعد ان کارخانوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
افغانستان سے پاکستان اور ایران کے راستے ہیروئن اور آئس مختلف خطوں میں سمگل کی جاتی ہے۔ چند سال پہلے تک ہیروئن مہنگی منشیات کے طور پر پہچانی جاتی تھی اور آئس اس کے مقابلے میں سستی تھی۔ تاہم چند ماہ میں آئس کی مانگ میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ ہیروئن کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی ہو چکی ہے اور اب آئس ہیروئن سے مہنگی منشیات تصور کی جا رہی ہے۔
استعمال کا آغاز اور اثرات
پونچھ کے سرحدی علاقے تیتری نوٹ سے تعلق رکھنے والے جمیل حسین (فرضی نام) ماضی میں افغانستان اور کشمیر کے ’جہاد‘ میں سرگرم رہ چکے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ’آئس پہلے ادویات کے ذریعے تیار ہوتی تھی، تیاری کا طریقہ تو مجھے پتہ نہیں، البتہ اسے بطوردوا ’مجاہدین‘ استعمال کرتے تھے۔ یہ اتنی طاقتور دوا تھی کہ اس کے استعمال کے بعد کچھ بھی کر گزرنا انسان کیلئے انتہائی آسان ہو جاتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’خود کش حملہ کرنے کی تیاری میں بھی اس ’دوا‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اب یہ بہت عام ہو گئی ہے اور میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔‘
ماہرین کے مطابق آئس پینے سے جسم کی توانائی دو گنا ہو جاتی ہے۔ ایک عام شخص 24 سے 48 گھنٹے تک جاگ سکتا ہے، اس دوران نیند بالکل نہیں آتی بلکہ انسان معمول سے دو گنا سرگرم اور متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ نشہ اعصابی نظام (سنٹرل نروس سسٹم) کو کچھ وقت کیلئے حد سے
زیادہ ایکٹو کر دیتا ہے۔ کچھ گھنٹوں کیلئے دماغ بہت تیزی سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس دوران انسان زیادہ دیر تک کچھ کھاتا نہیں، بہت زیادہ پر امید رہتا ہے، تیزی سے بولتا ہے، یادداشت کچھ دیر کیلئے تیز ہو جاتی ہے، سبق جلدی یاد ہوتا ہے، انسان خود کو سب سے پرفیکٹ اور ذہین سمجھتا ہے، انتہائی سخت ترین کام کے باوجود کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ تاہم نشہ اترتے ہی انتہائی تھکاوٹ اور سستی محسوس ہوتی ہے۔مسلسل استعمال اعصابی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ یادداشت ختم ہوتی ہے اور جسمانی حرکات کے جاننے کا عمل تباہ ہو جاتا ہے۔ وہم کی بیماری، ایک ہی بات کو بار بار دہرانے کا عمل، کسی کام پر توجہ نہ دے پانا، حافظہ تباہ ہو جانا، فیصلے کی اہلیت کھو دینا، وزن میں تیزی سے کمی اور قدرتی نیند ختم ہو جاتی ہے۔ بانجھ پن سمیت جسم میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جن سے پرتشدد جنسی رجحانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان خود پر اور دوسروں پرتشدد کرتا ہے، پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں اوروہم میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، یہاں تک کہ نوبت مکمل مفلوجی اور خود کشی تک پہنچ جاتی ہے۔
پونچھ میں کیسے پہنچتی اور فروخت ہوتی ہے؟
راولاکوٹ کے ایک نواحی دیہات میں چرس فروش کے طور پر شہرت رکھنے والے سلیم (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ’اب چرس کے خریدار مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ نوجوان آئس اور ہیروئن کو ترجیح دیتے ہیں۔‘وجہ پوچھنے پر انکا کہنا تھا کہ ’وجہ صاف ہے، وہ انتہائی مہنگے نشے تھے، اب اس قدر مہنگے نہیں رہے، چرس سے بہت زیادہ خطرناک ہیں۔ نشہ جتنا خطرناک ہوتا ہے، اس کی لذت بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب ہیروئن کا ٹوکن 50 سے 100 روپے میں مل جاتا ہے، اتنے میں چرس کا ایک سگریٹ بھی نہیں ملتا۔ آئس 2 ہزار سے 5 ہزار روپے تک گرام ملتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ آئس 8 ہزار روپے کی گرام بھی نہیں ملتی تھی، لیکن اب ایک ہزار روپے میں بھی انسان کی ضرورت پوری کرنے جتنی مل ہی جاتی ہے۔
ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اب راولاکوٹ، ہجیرہ اور دیگر نواحی دیہاتوں اور قصبوں میں کوئی چرس کا ’ڈیلر‘(دیہات
کی سطح پر کمیشن پر چرس بیچنے والے نوجوان) ایسا نہیں ملے گا، جو آئس نہ بیچ رہا ہو۔ آپ کو چرس نہیں ملے گی لیکن آئس اور ہیروئن ہر وقت میسر ہوتی ہے۔‘منشیات کے پہنچنے اور ترسیل کے طریقہ کار سے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ ’اس کے مختلف طریقے ہیں، لیکن ہر طریقہ اور راستہ سرکار سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ لوگ جان بوجھ کر یہ کر رہے ہیں، یا چند لوگ اداروں میں رہ کر یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ بہرحال اس کے تانے بانے وہیں جڑتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’نان کسٹم گاڑیاں جب بلوچستان سمیت دیگر سرحدی علاقوں سے جموں کشمیر میں لائی جاتی ہیں تو ان میں بھی منشیات بھر کر لائی جاتی ہے۔ وہ گاڑیاں قانونی طو رپر پاکستان سے گزر کر یہاں پہنچ نہیں سکتیں، اس لئے ’جگاڑ‘ کے ذریعے لائی جاتی ہیں اور ان میں اسلحہ اور منشیات بھی اسی جگاڑ کا حصہ بن جاتی ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ افغانستان میں ’جہاد‘ میں حصہ لینے والے افراد بھی اس کام میں ملوث ہیں۔ انکی نقل و حمل بھی غیر قانونی ہی ہوتی ہے اور وہ بھی افغانستان یا سرحدی علاقوں سے جموں کشمیر آتے ہوئے یہ منشیات ساتھ لاتے ہیں۔ یہ آئس اور ہیروئن تو سب سے پہلے لائے ہی وہی ہیں۔ آئس تو ’فدائی دوائی‘سمجھی جاتی ہے۔‘
کھائی گلہ سے تعلق رکھنے والے ایک لوکل ڈیلر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ’آئس کو یہاں لانے کا ایک آسان طریقہ اسے پگلا کر منرل واٹر کی بوتلوں کی پیکنگ میں لانے کا بھی ہے۔ تاہم وہ اتنی اعلیٰ سطح پرہی ہو سکتا ہے، جو اسے مائع سے واپس کرسٹل کی شکل میں تبدیل کرنے کا طریقہ بھی جانتے ہوں۔ پیناڈول سمیت دیگر کچھ دوائیں بھی ہیں جو مارکیٹ سے اٹھا کر اس مقصد کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’اب تو مخصوص قسم کا انرجی سیور بلب مارکیٹ سے ناپید ہو گیا ہے۔ کچھ دکانداروں نے تو آئس پینے کیلئے استعمال ہونے والے بلب جیسا شیشہ بنا کر فروخت کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔‘
منشیات کیخلاف سرکاری مہم اور کارروائیاں کارگر کیوں نہیں ہوتیں؟
حال ہی میں راولاکوٹ کی ڈویڑنل انتظامیہ نے منشیات کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس دوران متعدد افراد کو چرس فروشی کے
الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کچھ تعلیمی اداروں سے بھی منشیات برآمد ہونے کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ شہر میں کاروباری مراکز پر کارروائیوں کے دوران فلیورڈ تمباکو، رزلا پیپر اورالیکٹرک سگریٹ وغیرہ بڑی تعداد میں نشہ آور اشیا قرار دے کر ضبط کئے گئے ہیں۔ چند واقعات میں ہیروئن کی برآمدگی بھی ظاہر کی گئی ہے۔
تاہم ابھی تک کرسٹل میتھ کی فروخت اور ترسیل کے عمل میں شریک کوئی بھی شخص گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ نواحی گاؤں تراڑ سے تعلق رکھنے والے ایک منشیات فروش کا کہنا تھا کہ ’پولیس تو خود ہمیں منشیات مہیا کرتی ہے، وہ کب سے منشیات کا خاتمہ کرنے لگی؟‘
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے منشیات فروش کا کہنا تھا کہ ’آپ مجھ سے شرط لگا لیں، تمام دیہاتوں میں جو ’ڈیلر‘ چرس، آئس یا ہیروئن فروخت کر رہے ہیں، ویسے اب سارے ہی سب کچھ بیچتے ہیں، ان میں سے آدھے سے زیادہ تو پولیس والوں کی ہی بیچتے ہیں۔ خود پولیس کے اہلکار آئس کا شکار ہیں۔ ہم بیچنا چھوڑیں گے تو یہ جیلوں میں ڈال کر سزائیں دلوائیں گے۔ اس طرح سال میں ایک آدھ بار کچھ چرس برآمدگی کا معاملہ ڈال دیتے ہیں۔ انکا کام بھی ہو جاتا ہے اور ہم بھی ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں۔‘جامعہ پونچھ کے طلبہ نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ جن طلبہ سے منشیات برآمدہوتی ہے انہیں پولیس اہلکار بلیک میل کرتے ہیں اور ان سے بھاری رقم بٹورتے رہتے ہیں۔
محکمہ پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم آئس کے ڈیلر کیوں نہیں پکڑے جا رہے ہیں۔ البتہ پولیس کے منظم انداز میں منشیات فروشی میں ملوث ہونے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ چند عناصر ایسے ہو سکتے ہیں، یہ معاشرہ ایسا ہے کہ کوئی محکمہ بھی سو فیصد درست نہیں ہو سکتا۔‘
انتہا پسندی اور پرتشدد سرگرمیوں میں اضافہ
آئس کی سرائیت جس قدر تیزی سے ہوتی جا رہی ہے، اسی تیزی سے انتہا پسندی کی طرف نوجوانوں کے راغب ہونے کے ساتھ ساتھ پرتشدد سرگرمیوں میں بھی اضافہ نظر آ رہا ہے۔ نوجوانوں کے مختلف جگہوں پر پرتشدد حملے، قتل کے واقعات، بلیک میلنگ کے علاوہ طالبات کو اغوا کرنے اور تشدد کرنے جیسے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
انتہا پسند تنظیموں کی ریکروٹمنٹ میں بھی بے تحاشہ اضافہ نظر آ رہا ہے۔ سماجی اور معاشی مسائل کے علاوہ اسلحہ کلچرسے متاثر ہونے والے نوجوانوں میں آئس کا استعمال انہیں کچھ بھی فتح کرنے کیلئے فوری آمادہ کر رہا ہے۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر بشارت علی خان کا کہنا ہے کہ ’یہ خطہ مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس کو ایک منظم سازش کے تحت منشیات کی لت میں ڈبویا جا رہا ہے۔ ماضی میں جب ’کشمیر جہاد‘ کے نام پر پراکسی جنگ کا آغاز کیا گیا تھا، تو جان بوجھ کر اس خطے کے اندر ہیروئن کلچر کو عام کیا گیا تھا۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ریاست کی پالیسیوں کا ادراک رکھنے والے مزاحمتی نوجوانوں کی بڑی تعداد کو ایک منظم طریقے سے ہیروئن کا شکار بنایا گیا اور ان کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ اس خطے کی سیاست کو برباد کر کے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیا گیا تھا۔ اب ایک مرتبہ پھر افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد وہی طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’یہ خطہ سیاسی طور پر جتنا متحرک ہے، اس کے نوجوانوں کو آسانی سے ریاستی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ایک سازش کے تحت نوجوان نسل کو ہی مفلوج اور اپاہج کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ سمگلنگ کے ان تمام ذرائع کا فوری خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ریاست اگر چاہے تو ایک سوئی یہاں نہیں پہنچ سکتی، چوری کی گاڑیوں سے لے کر نان کسٹم پیڈ گاڑیاں، اسلحہ اور منشیات یہاں کس طرح پہنچ رہے ہیں، یہ سب کو معلوم ہے۔ کوئی بولنا اور آواز اٹھانا نہیں چاہتا، کیونکہ بہت سے طاقتور حلقوں کا کاروبار اور مفادات اس سب انسانیت سوز دھندے سے جڑے ہوئے ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ’ہم نوجوان نسل کو کسی صورت برباد نہیں ہونے دینگے۔ اس منظم سازش کا راستہ روکیں گے۔ تاہم یہ تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اس زہر کے یہاں پہنچنے اور فروخت ہونے کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو اس کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک شروع کی جائیگی۔
حارث قدیر صاحب کے شکریہ کے ساتھ ادارہ اسے شائع کر رہا ہے
حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔ وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔