شاہی سید صاحب آپ بھلے چاروں صوبوں کی اکائی میں پاکستان کی بقا سمجھو لیکن ہم سمجھتے ہیں کے پاکستان کی بقا میں سندھ کی موت ہے۔
کیوں کے ہمارے رہبر سائیں جی ایم سید نے فرمایا تھا کے پاکستان جتنا وقت قائم رہیگا سندھ اتنا ہی تیزی سے موت کے موں میں جائیگی۔
اس لیے ہم آپ کے پاکستان اور اس کے آئین و قانون کو نہیں مانتے۔
کیوں نہیں مانتے؟
کیوں کے جب سے آپ کا
پاکستان بنا ہے سندھیوں کا تاریخی وطن اور قومی بقا خطرے میں پڑ گئے ہیں ۔
سندھ عالمی یتیم خانہ بن گئی ہے۔
پاکستان کے نام پر دنیا جہاں کے بھگوڑے لاکے سندھ میں آباد کیئے جارہے ہیں۔
73ع کے آئین کے نام پر پنجابی، پٹھان، گلگتی، کشمیری، ھزارے، بہاری، بنگالی، برمی اور پتا نہیں کس کس کو لاکے کھچا کھچ سندھ میں بھردیا گیا ہے۔
جس وجہ سے ہمارا تاریخی وطن، وحدانیت اور قومی بقا خطرے میں پڑھ گئے ہیں۔
ہمارے تیل، گئس، کوئلے اور سارے معدنی ذخائر ہمارے نہیں رہے۔۔
ہمارے شہر، ہمارا سمندر، ہماری بندرگاہیں سبھی ہم سے چھین لئے گئے ہیں۔
ہم اپنے ہی وطن میں،اپنی ہی دھرتی پر، اپنے ہی شھروں میں کسی مہاجرین سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ہمارے دریا پر باندھ، باندھکر ہماری زمینیں بنجر کر دی گئی ہیں۔
ہمارے لئے روزگار کے دروازے بند کرکے منشیات، بدامنی، دہشتگردی اور کرپشن کوچھوڑ دیا گیاہے۔
بھوک، بدحالی اور مفلسی کی وجہ سے امیر سندھ کے وارث فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ہیں،
ہم سندھی لوگ دودھ بیچنا گناہ سمجھتے تھے لیکن آپکے پاک وطن کی مہربانی سے آج اپنے بچے اور گڑدے بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سچ پوچھو تو آپ کا پیارا پاکستان ہمارے لئے جہنم بن گیا ہے۔
ہمیں دہاتون مین پنجابی سامراج کے پیدا کیئے ہوئے وڈیرے، جاگیردار اور ڈاکو مارتے ہیں اور شھروں میں دنیا جہاں سے اکٹھے کئے گئے بھگوڑے دھشتگرد مارتے ہیں۔
اگر ہم اپنے حقوق مانگتے ہیں اور اپنے استحصال کی بات کرتے ہیں تو آپ کے پاگ وطن کی خفیہ ایجنسیز اور قانون نافظ کرنے والے ادارے مارتے ہیں۔
بلوچوں کی طرح ہمارے نامور رہنماں اور سیکڑوں قومی کارکنان بے دردی سے قتل کیئے گئے ہیں درجنوں کارکنان اس وقت بھی ٹارچر سیلز میں عقوبتون اور انسانیت سوز تشدد کا شکار ہیں۔
ھر طرح سے ہماری نسل کشی کی جارہی ہے کیوں کے پنجابی سامراج کو بنگالیوں کی طرح سندھی نہیں پر ان کی زمین چاہئے۔
سو شاہی سید صاحب آپ پاکستان کی بقا چاہتے ہو اور ہم خاتمہ اس لئے ہم ایک نہیں ہو سکتے۔
آپ کی بقا پاکستان میں ہے اور ہماری سندھودیش کی آزادیٴ میں۔
ہمیں سندھ کی آزادی چاہئے اور وہ ایگ دن ہم لیکر رہینگے۔
آج ہم کمزور ہیں،ہماری آزادی کی تحریک دھیمی ہے لیکن پھر بھی جیت ہماری ہی ہوگی کیوں کے ہم ایک تاریخی وطن کی وارث قوم ہیں اور کسی بھی قوم کو دنیا کی کتنی بھی بڑی طاقت کیوں نہ ہو زیادہ وقت غلام نہیں رکھ سکتی۔
شاہی سید صاحب!
آپ کہتے ہو سائیں جی ایم سید اور سندھ پر ہم دعویٰ کرسکتے ہیں؟
معاف کیجئے گا آپ یے تکلف اور دعوی سید جلال شاہ سے اور اس کے گھر پر کر سکتے ہو لیکن سائیں جی ایم سید اور سندھ پر نہیں۔
حقیقت میں آپ جہاں بیٹھے ہو وہ سید جلال شاہ کا گھر ہے سائیں جی ایم سید کا نہیں
کیوں کے سائیں جی ایم سید کا ایک تو گھر سن میں ہے اور دوسرا کراچی میں تھا حیدرمنزل کے نام سے جو سید جلال شاہ نے بیچ دیا۔
آپ کے علم میں اضافے کے لیے ایک تاریخی حقیقت بتاتا ہوں جو ہمارے لیے دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
ایگ دن سائیں جی ایم سید نے جناب باچا خان سے کہا سندھ میں پختونوں کی بڑہتی ہوئی آبادی پر مجھے خدشات ہیں جس سے مستقبل قریب میں سندھیون کی بقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور سندھیوں کی ڈیموگرافی تبدیل ہو سکتی ہے۔
جناب باچا خان نے سائیں جی ایم سید سے کہا پختون سندھ میں روزگار کی وجہ سے رہ رہے ہیں جس دن سندھی سمجھیں کے وہ ان کی قومی بقا اور وحدانیت کے لیے خطرہ ہے تو سندھی انہیں سندھ سے نکالنے کا حق رکھتے ہیں اور نکال سکتے ہیں۔
آج نہ تو سائیں جی ایم سید ہے اور نہ ہی جناب باچا خان۔
پر افسوس کی بات تو یے ہے کے آج پٹھان کراچی سمیت سندھ بھر میں نہ صرف دوسری بڑی آبادی ہونے کی دعوی کر رہے ہیں
بلکے مسلسل سندھی نوجوانوں کو بیدردی سے قتل کرنے والے افغان پناہ گزینوں کی پختون ہونے کی بنیاد پر کھلم کھلا حمایت بھی کر رہے ہیں۔
جناب باچا خان نہ صرف سائین جی ایم سید کی بے تحاشہ عزت کرتے تھے پر سچے دوست ہونے کے ناطے ان سے محبت بھی کرتے تھے اور سائیں جی ایم سید بھی۔
ایک دوسرے سے اتنی قربت ہونے کے باوجود جناب باچا خان نے بھی کبھی سائین جی ایم سید کے گھر اور سندھ پر تکلف میں ہی صحیح دعوی نہیں جتائی تو آپ کیسے دعوی جتا سکتے ہو؟
رہی بات سندھ میں کس کو رہنا ہے اور کس کو نکلنا ہے یے طئے شدہ ہے جو سائیں جی ایم سید کی صدارت میں سندھ کے سارے بڑے اور نامور سیاستدانوں کی متفقہ رائے سے طئے کیا گیا تھا کے 1954ع کے بعد سندھ میں جتنے بھی لوگ آئے ہوئے ہیں چاہے وہ پاکستانی ہو یا غیر ملکی ان کو ہم سندھی نہیں تسلیم کرتے اور ان کو ہر صورت میں سندھ چھوڑ کر جانا پڑہے گا۔
اس لئے ہم واضح کرتے ہیں کے سندھ صرف سندھیوں کا ہی وطن ہے اس پر اگر دنیا جہاں کے ایرےگیرے نتھو خیرے دعویٰ جتا رہے ہیں تو اس کی وجہ پاکستان ہے جس کو ہم نہیں مانتے۔
امید ہے کے بات سمجھ میں آگئی ہوگی اگر نہیں تو آجائیگی کیوں کے ہم تو اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور
جس جس سے لڑنا پڑا لڑیں گے۔
جب تک زندہ ہے لڑتے رہیں گے،
کیون کے اپنے وطن کی حرمت اور بقا کے لیے لڑکر جام شہادت نوش کرنا ہم سندھیوں کی روایت رہی ہے۔
ہماری تاریخ کھول کر دیکھلو!
کبھی ہم آرینس سے لڑیں ہیں تو کبھی عربون سے،
کبھی ہم کھلجیوں سے لڑے ہیں تو کبھی مغلوں سی۔،
کبھی ہم ارغونوں سے لڑے ہیں تو کبھی پرتگیزیوں سے، کبھی ہم تاتاریون سے لڑے ہیں تو کبھی ترخانوں سے،
کبھی ہم کندھاریوں سے لڑے ہیں تو کبھی انگریزوں سے۔
ہم تو اپنے وطن کی دفاع اور قومی بقا کی خاطر ہر دور میں ہر حملہ آور سے لڑتے آرہے ہیں۔
یے ہی وجہ ہے کے نو ہزار سالوں سے ہم اور ہمارا وطن قائم و دائم ہے۔
مہر گڑھ سے لیکر مہیں جو دڑو تک، مہیں جو دڑو سے لیکر آمری تک اور آمری سے لیکر آج تک ہم اپنی مقدس ماں سندھ کی بقا کے لیے لڑتے ہی تو آئے ہیں۔
اور آج پنجابی سامراج ان کے حواریوں اور سہولتکاروں سے بھی لڑنے کے لیے تیار ہیں اور لڑینگے کیوں کے پاکستان کا وجود سندھ کے لیے زہر قاتل ہے۔
اور اس زہر قاتل کے خاتمے کے لیے ہمیں اپنی بقا کی آخری جنگ لڑنی پڑے گی۔
ایک کہاوت ہے یاد رکھنا کہتے ہیں جو قوم مارنے سے بھی نہیں مرتی وہ سندھی ہے۔ ۔۔۔۔