پوسٹر : تحریر, سمیر

0
90

کبھی کبھی لگتا ہے سالا ہر بلوچ مستقبل کا پوسٹر ہے ـ 2016 کے انہی ایام میں لالا فہیم بلوچ کراچی کی سڑک پر کامریڈ واحد کی تصویر اٹھائے کھڑے تھے جس پر لکھا تھا “کامریڈ واحد بلوچ کو بازیاب کرو” ـ آج کامریڈ واحد بلوچ کی ایک تصویر وائرل ہے جس میں وہ کراچی پریس کلب کے سامنے لالا فہیم بلوچ کی تصویر اٹھائے کھڑے ہیں ـ مطالبہ وہی ہے بس پوسٹر و پوسٹر بردار بدل گئے ہیں ـیادش بخیر؛ بانک کریمہ بلوچ ہر ہفتے کسی جبری گمشدہ یا مقتول بلوچ کی تصویر پر مشتمل پوسٹر اٹھائے کھڑی نظر آتی تھی پھر وقت نے ایک دن ان کو ہی پوسٹر بنا دیا ـ کون، کب جیتے جاگتے انسان سے پوسٹر بن جائے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا ـگئے دنوں میں میرا صدیق عئیدو نامی دوست ہوا کرتا تھا ـ تعلق ساحلی شہر پسنی سے تھا ـ موصوف کو فلسفہ پڑھنے اور فلسفیانہ جملے بازی کا شوق تھا ـ جب بھی کراچی آتے مجھے گھسیٹتے ہوئے اردو بازار لے جاتے اور نئی نئی کتابیں خرید کر پسنی روانہ ہوجاتے ـ دوستوں میں وہ کامریڈ صدیق کے نام سے مشہور تھے لیکن مجھے پکا یقین ہے وہ ایک لمحے کے لئے بھی کمیونسٹ نہیں رہے ـ انہیں مارکسی فلسفے سے بڑی اچھی آگاہی تھی، لینن کو خوب کوٹ کرتے تھے شاید اسی لئے دوستوں کو غلط فہمی تھی وگرنہ وہ کٹر قوم پرست تھے ـ وہ ڈاکٹر مہدی حسن کے ادارے سے بھی منسلک تھے ـ یہ ادارہ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرتا تھا ـایک دن صدیق عئیدو کی کال آئی کہ آٹھ چوک پہنچو اردو بازار چلتے ہیں ـ میں وہاں پہنچا تو موصوف کا موڈ بدل چکا تھا ـ فرمایا پہلے کراچی پریس کلب چلتے ہیں ـ اس وقت بلوچ افسانہ نگار و فلم ساز ڈاکٹر حنیف شریف کی والدہ وہاں دھرنا دیے بیٹھی تھی ـ ڈاکٹر حنیف شریف تصویر بن کر تربت سے اڑتے ہوئے کراچی پریس کلب کے سامنے ٹنگے ہوئے تھے ـ ہم وہاں پہنچے ـ زاہد کرد نامی نوجوان وہاں جوشیلے انداز میں محوِ گفتگو تھے ـ وہ بار بار فرانز فینن کا حوالہ دے رہے تھے ـ اب یاد تو نہیں آرہا موضوع کیا تھا مگر صدیق اور زاہد کے درمیان فینن پر زبردست بحث چھڑ گئی ـ مجھے بعد میں پتہ چلا زاہد کرد؛ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ممبر ہے اور ان کا تعلق نال سے ہے ـ بحث کا نتیجہ تو نہ نکلا البتہ صدیق اور میں اردو بازار کی جانب نکل گئے ـ راستے میں صدیق نے کہا یار ہماری بھی کیا زندگی ہے، دنیا بھر کی کتابیں پڑھنے کے بعد پریس کلب پر ٹنگی تصویر بن جاتے ہیں ـوہی ہوا ـ ایک دن صدیق عئیدو گوادر سے پسنی آتے راستے میں پسنی کے بلوچ شاعر نصیر کمالان کے ساتھ دھر لئے گئے ـ مہینوں جبری گمشدگی کا شکار رہے ـ وہ پوسٹر بن کر زاہد کرد کے ہاتھ آئے ـ مطالبہ وہی تھا ـچند مہینوں بعد صدیق عئیدو اور بزرگ بلوچ شاعر نصیر کمالان مسخ لاش بن کر بازیاب ہوگئے ـ قاتلوں نے نصیر کمالان کی سفید داڑھی کو مہندی لگا کر سرخ کردیا تھا ـ زاہد کرد کا جوش غصے میں ڈھلتا رہا ـ وہ پوسٹر بدلتے رہے ـ پھر زاہد کرد نے قبائلی شناخت ترک کرکے خود کو زاہد بلوچ کے نام سے متعارف کروایا ـ موصوف طلبا تنظیم کے چیئرمین منتخب ہوگئے ـکچھ سال گزرے ـ کرد سے بلوچ شناخت میں ڈھلے زاہد کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے اٹھا کر جبراً لاپتہ کردیے گئے ـ ہنوز جبراً لاپتہ ہیں ـ لطیف جوہر اور بانک کریمہ بلوچ پوسٹر کی شکل اختیار کرنے والے زاہد بلوچ کو لے کر کراچی میں اسی جگہ آکر بیٹھ گئے جہاں گئے وقتوں میں زاہد اور صدیق فرانز فینن پر بے نتیجہ بحث کر رہے تھے ـ مطالبہ وہی تھا ـ پھر بانک کریمہ بلوچ بھی ایک دن ………..”یار ہماری بھی کیا زندگی ہے، دنیا بھر کی کتابیں پڑھنے کے بعد پریس کلب پر ٹنگی تصویر بن جاتے ہیں”

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں