سی ٹی ڈی سے مقبوضہ بلوچستان میں آپریشنز اور مارے گئے افراد کی تفصیلات طلب

0
46

لوچ طلباء کی شکایات کا جائزہ لینے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنائے گئے کمیشن کے کنوینر سردار اختر مینگل کی سربراہی میں سی ایم سیکریٹریٹ بلوچستان کا دورہ کیا اور بلوچ طلباء کے خدشات اور شکایات کے ازالے کیلئے اجلاس کا انعقاد ہوا۔

اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان، آئی جی پی بلوچستان، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ڈویژنل کمشنرز نے شرکت کی۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے بتایا کہ تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں سیل قائم کر دیئے گئے ہیں اور ان کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔

چیف کمشنر مکران نے بتایا کہ ہیلپ ڈیسک قائم کردیا گیا ہے لیکن ابھی تک کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

کمشنر کوئٹہ نے کہاکہ انہیں ہیلپ ڈیسک کے ذریعے 4 درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن کو ہوم ڈیپارٹمنٹ بھیجیں گے۔

کمشنر رخشان ڈویژن اور ڈویژنل کمشنرز نے بتایا کہ ہیلپ ڈیسک قائم کر دیئے ہیں، کوئی درخواست موصول ہوگی تو اس پر کارروائی کی جائے گی۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے کہا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ سیل میں 700 درخواستیں موصول ہوئی، سکروٹنی کا 10 مرحلوں کا عمل ہے، 222 درخواستوں پر انویسٹی گیشن شروع کردی گئی ہے۔

کمشنر قلات نے بتایا کہ ہمیں 12 درخواستیں لاپتہ افراد کے حوالے سے موصول ہوئی ہیں۔

کمشنر قلات ڈویژن نے موصول درخواستیں اور کال لاگ کی تفصیلات کمیشن کے حوالے کی۔

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ سی ٹی ڈی 2015 میں سی آئی ڈی ہوا کرتی تھی، اے پی ایس پر حملے کے بعد اس کو سی ٹی ڈی کردیا گیا، داعش، ٹی ٹی پی یہاں سرگرم تھی، ابھی بلوچستان میں سی ٹی ڈی کے 7 پولیس سٹیشنز ہیں، 18 گریڈ کا افسر ہیڈ کرتا ہے، ہیڈ کوارٹر میں 5 ایس ایس پیز ہوتے ہیں، 2021 میں سی ٹی ڈی کو ری ویمپ کردیا گیا، کارپورل کا ایک الگ سیکشن بنایا گیا، ہمارے پاس بلوچستان پولیس سے بھی ایک سال یا دو سال کیلئے لوگ آتے ہیں، ٹریننگ کیلئے کاونٹر ٹیررازم سکول کے قیام کی تجویز دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2طریقوں سے آپریشن کئے جاتے ہیں ایک سی ٹی ڈی خود کرتی ہے اور دوسری انٹیلی جنس ایجنسیز کے ساتھ ملکر کرتی ہے، ایف سی کے ساتھ بھی مشترکہ آپرشن کبھی کبھی کرتے ہیں، اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، نجی گواہ ڈر کے مارے کورٹ میں پیش نہیں ہوتے اس لئے وٹنس پروٹیکشن ایکٹ کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں، اکثر ڈر کے مارے ایف آئی آرز نہیں ہوتی، اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے،جب تک پبلک سروس ڈیلیوری بہتر نہیں ہوگی، عوام کو ساتھ شامل نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں بلوچستان میں ٹی ٹی پی نے 3 حملے کئے۔

کمیشن کے کنوینر سردار اختر مینگل کے ایک سوال پر ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے بتایا کہ آپریشنز کو انسپکٹر/سب انسپکٹر لیڈ کرتا ہے، آرمی کے ساتھ کوئی مشترکہ آپریشن نہیں کیا۔

کمیشن کے کنوینر نے کچھ لاپتہ افراد کے حوالے سے سی ٹی ڈی حکام سے سوالات کئے جس کی متعلقہ معلومات ڈی آئی جی، سی ٹی ڈی بلوچستان نے فراہم کیں۔

کمیشن نے سی ٹی ڈی سے آپریشنز اور ان آپریشنز میں مارے گئے افراد کی تفصیلات طلب کیں۔

اجلاس میں آئی جی پی بلوچستان نے لاپتہ افراد اور عوام کی اعتماد کی بحالی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے کمیشن کو آگاہ کیا اور کچھ تجاویز بھی دیں۔

آئی جی پی بلوچستان نے کہا کہ عدم اعتماد کو ختم کرنے کیلئے عوام کے ساتھ انٹرایکشن کو فروغ دینے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، طلباء کو بھی انگیج کرنے کا بھی پروگرام ہے، افسران یونیورسٹی جا کر بحث و مباحثے میں حصہ لیں گے، بلوچستان میں پولیس کو مزید موثر بنانے کیلئے وفاق سے مالی معاونت کی اشد ضرورت ہے، جب لوگوں سے بات کریں گے، ملیں گے تو عدم اعتماد آہستہ آہستہ ختم ہوگا، میں کوشش کروں گا کہ سی ٹی ڈی جو بھی آپریشن کرے اس میں شفافیت ہو۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے کہا کہ مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے، کوئی مسنگ پرسن کا معاملہ آتا ہے تو باقائدہ اس پر ان کیمرہ بریفنگ ہوتی ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ لاپتہ افراد کا سلسلہ بند ہو۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں