اداریہ
بلوچستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب سے یہاں بلوچ قومی سوال کے گرد تحریک کا ابھار ہوا ہے تب سے یہ حکمران قوتوں کے ہاتھوں انتہائی کر بناک انسانی المیوں کا شکار ہے۔اس حوالے سے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کی کارروائیاں، طلباو سیاسی کار کنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی گرفتاریاں و جبری گمشدگیاں اور لاپتہ بلوچوں کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور جبرواستبدادکے دیگر مناظر حکمرانوں کے ان دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں جن میں بلوچستان کو جدید ترقی سے ہمکنا ر،خوشحال اور جمہوری و سیاسی آزادیوں کا حامل قرار دیا جاتا ہے، لیکن صورتحال اس کے بر عکس حقیقت بیان کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں مقامی ذرائع و مختلف میڈیا رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ ہونا قابل گردن زدنی جرم بن گیا ہے، کسی بھی جگہ کوئی بھی واقعہ رونما ہونے پر سیکیورٹی اداروں کی کا رروائیوں کا نشانہ عام بلوچ آبادیوں کو بنا یا جاتا ہے، جس میں کسی کی نہ تو جان محفوظ ہوتی ہے اور نہ ہی مال، اس حوالے سے بلوچ سیاسی وعوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں حراست میں لئے گئے بلوچوں کو یا تولاپتہ کر دیا جاتا ہے یا پھر انہیں دہشتگرد قراردے کر موقع پر ہی نشانہ بنا کر شہید کردیا جاتا ہے، جس کا بد ترین اور دل دہلا دینے والا مظاہرہ 13 اگست 2020ء کو تربت میں طالب علم حیات بلوچ کو بغیر کسی جرم کے سرعام ہاتھ باندھ کر گولیوں سے چھلنی کرنے کے سفاکانہ واقعہ کی صورت میں واضح طور پر دیکھا گیا، جس میں یہ نوجوان طالب علم موقع پر ہی شہید ہو گیا، اور اس کے بوڑھے والدین اپنے لخت جگر اور روشن خوابوں کی تعبیر کی خون میں لت پت لاش کو اپنی ناتواں اور بوڑھی با نہوں میں لئے بے بسی اور لاچار گی کی ایسی دردناک تصویر نظر آئے کہ ہر اولاد اور انسانی درد رکھنے والے کی آنکھیں رنج و غم سے نم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
اس کر بناک سفاکانہ انسانی المیے نے جہاں شہید حیات بلوچ کے بوڑھے والدین اور لواحقین کو ناقابل فراموش گہرے رنج و غم میں ڈبو دیا ہے وہاں اس امرکو ایک بارپھر واضح کیا ہے کہ ریاستی اہلکاروں کو یہ چھوٹ حاصل ہے کہ وہ قانونی و عدالتی تقاضوں کو کسی خاطر میں لائے بغیر جو چاہیں بلوچوں کو سزادیں، اس ضمن میں بلوچستان کے سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک بلوچستان کی سرزمین ااور اس کے و سائل و ساحل کی اہمیت تو ہے لیکن بلوچ قوم کو اپنے مخصوص مفادات کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیا گیا ہے، اسی لئے وہ بلوچ عوام کی نسل کشی کے حامل بے رحمانہ اقدامات پر اترآئے ہیں۔