گلگت بلتستان:ریاستی یقین دہانی پر احتجاج ختم،کیا عوامی مطالبات مانے جائیں گے۔رپورٹ

0
101

گلگت بلتستان میں دس روز سے جاری احتجاج،ریاست کے ذمہ داران کے ساتھ اجلاس بعد ایک ماہ کے لیے موخر کر دیا گیا۔

گلگت بلتستان کی تاریخ میں سب سے بڑی عوامی احتجاج کو بلا آخر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقامی نمائندوں کے زیر ایک ماہ کی مہلت کے ساتھ اختتام پزیر کرایا۔ اس احتجاج کا مقصد سیدھا عوام سے تھا جو روز مرہ کی زندگی سے منسلک ایشوز کے لیے آواز بلند کر رہے تھے، جس میں گندم سبسڈی میں کٹوتی، بجلی کے بلات میں اضافہ، ناجائز ٹیکسیز کے نفاذ اور طورمک ٹرک روڈ، طورمک میں اساتذہ کی کمی، لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی و دیگر مسائل شامل تھے۔

مستقل احتجاج سے قبل مختلف علاقوں میں عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان نے کارنر میٹنگ اور پہلے دور میں چھوٹے سطح پر عوامی آگاہی کے سلسلے کو چلایا جو دو ماہ سے جاری تھا پھرعوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کی کال پر گلگت بلتستان میں مکمل شٹر ڈاؤن پہیہ جام ہڑتال رہا اور ہر ضلعے میں زمینوں پر قبضے، گندم سبسڈی میں کٹوتی، اور دیگر بنیادی انسانی سہولیات کی عدم فراہمی کے خلاف عوام کا سمندر اُمڈ آیا۔

ریاستی ناجائز ٹیکسیز اور مہنگائی کے خلاف پورے گلگت میں عوام کا سیلاب سخت سردی میں شاہراؤں پر احتجاج کرتے نظر آیا اور مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال و مظاہرئے ہوئے۔
گلگت بلتستان کے عوام نے نوآبادیاتی نظام کو اب قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے حق کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا،مظاہرین نے کہا اگر حکمراں طبقہ اور بیوروکریسی گلگت بلتستان کو چراہ گاہ سمجھنے کی غلطی کو برقرار رکھیں گے تو مزاحمت میں بھی شدت آئے گا عوام نے جدوجہد کا فیصلہ سنا دیا ہے۔

گزشتہ روز انجمن تاجران بلتستان کے ساتھ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کی میٹنگ ہوئی جس میں ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے انکے مطالبات کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگا اور اسکے بعد احتجاج اختتام پزیر ہوا،۔
ہمارے بیوروچیف کے مطابق ایکشن کمیٹی کے ایک زمہ دار نے کہا ہے کہ ہم کچھ روز ریاستی اعلیٰ کاروں کا عمل دیکھتے ہیں اسکے بعد اگر کوئی حتمی عمل سامنے نہیں آیا تو اس پر غور کرینگے کہ اگلا قدم کیا ہوگا۔واضح رہے کہ گلگت بلتستان کی اتنی بڑی عوامی احتجاج پاکستانی کی کسی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں ایک چھوٹی سی خبر کی جگہ بھی نہیں بنا سکی،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قابض اور مقبوضہ کا رشتہ کیسے ہوتا ہے اور آج جموں کشمیر سمیت گلگت بلتستان کے عوام بھی اپنی زمین پر محکوم ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ اسلام آباد سے عوامی مطالبات کے لیے کوئی ریلیف دے پھائیں گے یا وہ بھی عوام کی طرح بے بس رہینگے،بظاہر معاشی بدحالی کا شکار پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کوئی ریلیف گلگت کے عوام کو دے سکے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں