راولپنڈی لالکڑتی بازار میں میرے دوست کی سٹیشنری کی دکان ہے، اکثر اوقات فوجی گاڑیاں آتی ہیں. ڈرائیور گاڑی میں بیٹھا رہتا ہے اردلی دکان میں آ کر دو پینسل، دو ربڑ، شارپنر وغیرہ لیتا ہے. معلوم ہوتا ہے کہ کرنل صاحب کی چھوٹی بیٹی دوسری کلاس میں پڑھتی ہے اسے پینسل ربڑ چاہیے تھے. بیس روپے کی چیز لینے سرکاری گاڑی، دو ملازمین اور ڈھیروں پٹرول خرچہ کیا جاتا ہے۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد وہی گاڑی ساتھ والی دکان سے آدھا کلو چم چم آدھا کلو پیٹھا لینے آتی ہے معلوم ہوتا ہے بیگم صاحبہ کا مٹھائی کھانے کا دل کر رہا تھا۔
شام کو پھر وہی گاڑی دو بندوں کے ساتھ آتی ہے اور سامنے والے ڈھابے سے چکن کارن سوپ لے کر جاتی ہے. پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ مسز کرنل اور بچوں کا دل سوپ پینے کو چاہتا ہے۔ کئی دفعہ یہ پیسے دئیے بغیر چلے جاتے ہیں،دکاندار جب پیسوں کا پوچھتا ہے تو سنتری جواب دیتا ہے کرنل صاحب سے پیسے مانگتے ہو،تم کو دکان چلانا ہے کہ نہیں۔
اور ایسی ایک نہیں سینکڑوں گاڑیاں، ہزاروں ملازمین ان فوجی افسران کی خدمت میں دن رات محنت کر رہے ہیں. پہلے راولپنڈی صدر، مری روڈ، کمرشل مارکیٹ سے شاپنگ ہوتی تھی اب شاپنگ کرنے گیگا مال اور سینٹورس جاتے ہیں۔
فوجی افسران کی زندگی بھر کی کمائی اتنی نہیں ہوتی جتنے اس کے پاس اثاثے محفوظ ہوتے ہیں. آرمی آفیسر کالونی، عسکری ہاؤسنگ سوسائٹی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے میجر سے اوپر کسی بھی گھر میں چلے جائیں، آپ کو زرائع آمدن، اثاثہ جات اور اخراجات میں واضح تفاوت نظر آئے گا.