امریکی حکام نے کہا ہے کہ افغانستان میں مقیم مبینہ دہشت گرد گروپوں نے پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان کے خلاف حملوں کی نہ صرف منصوبہ بندی کی بلکہ حملوں کو انجام بھی دیا۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت 20 سے زائد مسلح گروپ اپنی افغانستان میں موجودگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
امریکہ کے نیوز نیٹ ورک کے مطابق بالخصوص تشویش کا باعث پاکستانی طالبان کی افغانستان میں سرگرم موجودگی ہے۔ یہ ایک باغی گروپ ہے جس نے گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں کئی دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ گزشتہ ہفتے روس، چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے سینئر سفارت کاروں نے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے تاشقند میں ملاقات کی ہے۔
ازبک وزارت خارجہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شرکا نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود تمام دہشت گرد گروہ علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے بدستور سنگین خطرہ ہیں۔ تاشقند اجلاس میں شریک ہونے والے ان ملکوں نے موجودہ ڈی فیکٹو افغان حکام سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے مزید موثر اقدامات کریں۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے گزشتہ ہفتے ’ایک چینل کو بتایا تھا کہ اگرچہ طالبان نے خود سے عہد کیا ہے کہ وہ ایسے دہشت گردوں کی میزبانی نہیں کریں گے جو دوسرے ملکوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان گروپوں کو اپنی سرزمین پر تربیت دینے، بھرتی یا فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تاہم اب بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے متعلق گفت و شنید کے دوران طالبان نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے گروپوں اور افراد کے خلاف، تیزی سے کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان اب بین الاقوامی پابندیوں میں 6 ہمسایوں ملکوں کے لیے غیر محفوظ سرحدوں کے ساتھ ملک چلا رہے ہیں۔ ان کی کوئی منظم فوج نہیں ہے اور وہ امریکی اور علاقائی انسداد دہشت گردی کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں۔
طالبان افغانستان کے اندر دہشت گرد گروپوں کو پناہ دینے کی تردید کر رہے ہیں اور دوسرے ملکوں کے لیے سکیورٹی خطرات کو روکنے کے اپنے عزم کا بھی بارہا اعادہ کرتے آرہے ہیں۔ نام نہا د دولت اسلامیہ خراسان صوبہ ”آئی ایس کے پی“ اور دیگر مسلح اپوزیشن گروپوں کی جانب سے جاری خطرات کو غیر معمولی قرار دینے کے باوجود طالبان افغانستان کے اندر دہشت گردانہ حملوں کو روکنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔