مقبوضہ بلوچستان کے علاقے خاران سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار شاہ فہد ولد محمود خان کی ہمشیرہ نادیہ بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بھائی کو لاپتہ کرنے کے بعد ایف سی کرنل خاران کیمپ بلا کر دھمکارہی ہے۔اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئر مین ماما قدیر اور حواران بلوچ بھی موجود تھیں۔
لاپتہ شاہ فہد کی ہمشیرہ نادیہ بلوچ نے کہا کہ میرے بھائی شاہ فہد، عمر 22 سال ہے۔وہ حافظ القرا?ن ہیں جسے 16 مارچ 2022 کو ہمارے گھر واقع بابو محلہ خاران سے سی ٹی ڈی نے جبری اٹھا کر لاپتہ کر دیا ہے،میرے بھائی کو بازیاب کرنے کے بجائے اب ہمیں مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ہراساں کیا جا رہا ہے کہ ا?پ لوگ ا?واز نہ اٹھائیں،پولیس ایف ا?ئی ا?ر اور لاپتہ افراد پہ قائم کمیشن کو دیے گئے رپورٹس میں سی ٹی ڈی کو نامزد نا کریں بلکہ نامعلوم افراد لکھ دیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کو عینی شاہدین کی موجودگی میں سی ٹی ڈی نے گھر سے جبری لاپتہ کیا، اس دوران تفتیش کے بہانے ہمارے گھر سے موبائل،فونز 70 ہزار روپیہ اور دیگر قیمتی اشیاء چرا لے گئے،اس سے پہلے شاہ فہد کو میرے بڑے بھائی غلام فرید کے ساتھ 26 اگست 2016 کو جبری لاپتہ کیا گیا تھا، شاہ فہد کی عمر اس وقت محض پندرہ سال تھا، اسے کچھ دنوں بعد چھوڑ دیا گیا اور بڑے بھائی کو تین سال تک جبری لاپتہ کرنے کے بعد چھوڑا گیا تھا۔
شاہ فہد کی ہمشیرہ نے کہا کہ ہمارے خاندان کو مسلسل ریاستی جبر کا سامنا ہے، ایف سی کرنل خاران کیمپ بلا کر سی ٹی ڈی کی موجودگی میں دھمکیاں دے کر تنبیہ کرتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کو اپنے بھائی کی جبری گمشدگی میں نامزد نہ کریں، دوسری طرف پہ پولیس کہتی ہے کہ ایف ا?ئی آر میں نامعلوم کا نام درج کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم بطور اس ملک کے شہری جینے کا آئینی حق رکھتے ہوئے متعلقہ حکام بالا سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ ہمیں انصاف دلا سکتے ہیں؟ہم نے اپنے بھائی کی بازیابی کیلئے قانون اور آئین کے تمام تر ذرائع بروئے کار لائے ہیں، کمیشن اور کورٹس میں مسلسل پیش ہوتے آ رہے ہیں، احتجاج کے تمام جمہوری اور جائز طریقے اپنائے ہیں، گزشتہ سال ریڈ زون میں جاری احتجاجی دھرنے میں بھی شریک رہے،آخر ہمیں یہ بتایا جائے کہ ہمارا قصور کیا ہے کہ ہمیں اجتماعی جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟آخر میں ہم اپیل کرتے ہیں کہ میرے بھائی شاہ فہد کو منظر عام پر لایا جائے اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے یا اس پہ کوئی الزام ہے تو اسی ملکی قانون کے تحت عدالتوں میں پیش کیا جائے، لیکن ہمیں انصاف دیا جائے۔