مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ میں وی بی ایم پی کاجبری لاپتہ افراد کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

0
37

مقبوضہ بلوچستان راجدانی کوئٹہ میں جبری لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4999 دن ہوگئے,اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مچھ بولان سے سیاسی سماجی کارکن جاوید بلوچ، محبوب بلوچ اور دیگر نے اظہاریکجہتی کی
کیمپ میں تین سالوں سے جبری لاپتہ مٹھا خان مری کی اہلیہ اور لواحقین نے بھی شرکت کی، اس موقع پر انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپیل کی کہ مٹھا خان کو بازیاب کیا جائے وہ بیگناہ ہیں اگر ان پہ کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ہم انتہائی پریشانی میں ہیں، گھر کا واحد سہارا چھین لیا گیا ہے، خدارا اسے بازیاب کیا جائے اور ہمیں سکون سے جینے دیا جائے –
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مادر وطن بلوچستان کے سینے کو چھیر کر شہداء بلوچستان سے جنم لینے والے نوجوان بچے بزرگ اپنے ماں کی آرزو اور بقاء کی خاطر گولیوں سے چھلنی بدن کے ساتھ فکر نظریہ کی خاطر دھرتی ماں کے لیے ماں کی اغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ جہاں قوم کے سرمایہ مسیحا نوجوان آزاد خیال ہوں بے حس ذہین میں خوف مراعات لالچ کے انبار ہوں فکر نظریات شخصیت پرستی و بت پرستی کے غلام ہو نا امیدی مایوسی بے خبری لاعلمی کا سما ہو وہاں شہدا مشل راہ بناتی ہے انسانی تاریخ میں عظیم بہادر وہی ہوتے ہیں کہ جس راہ پر چلتے ہیں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کٹھن کانٹوں سے بھری ہوئی راستوں پر محو سفر ہونے کا انجام کیا ہوتا ہے اس کے باوجود دوستوں کی شہادت اور ساتھیوں کی پرتشدد تکلیف دہ زندگی مزید خطرناک چیلنجز کا سامنا دشمن کی سفاک عزالم کو پیش نظر اپنی قومی فکر پر قائم رہنا کیا شعوری اور پختہ فیصلہ نہیں ہے۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج بھی پاکستان کے زرخرید قاتلوں کے ہاتھوں بلوچ نوجوان پرعزم جو سماجی طور پر مفلوج ہوکر زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنی قومی سوچ پر قائم دائم ہے اور کئی ساتھی اپنے زخموں کے ساتھ اپنی زخمی قوم وطن کے لئے برسرپیکار ہیں نوجوانوں بزرگوں خواتین کی بلوچ قومی سیاست میں واقعی ایک کردار ماضی سے لے کر آج تک رہا ہے اور اب بھی ہے۔ لیکن کردار کے ساتھ ساتھ پاکستان کی پرورش کردہ کالی بھیڑیوں نے اپنا گناونا کردار ادا کیا۔ وہ سیاسی گند جو آج تک صاف نہیں ہو رہے ہیں۔ ساتھیوں کی محنت اور دوستوں کی قربانیوں اور حالات کے مثبت اثرات کے بدولت تنظیم نے کسی حد تک سابقہ منفی رویوں اور رحجانات پر قابو پا لیا ہے تنظیم کے بارے میں دوسرے لوگوں کی رائے اور تنقید کا ٹھنڈے دل سے احترام کرنا ہوگا۔ اچھے اصلاح مشوروں اور خیالات کو اپنانا ہوگا۔ بشرط نیک نیتی مخلصی اور عملی کردار کار فرما ہو۔ ایسے عناصر کی مکمل حوصلہ شکنی کرنی ہوگی جا خد ہمت حوصلے سے عاری ہو کر نظریہ فکر اور عمل کے سامنے شکست تسلیم کرکے تنظیم کے خلاف زہر افشانی کر رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں