(پاکستا ن کے ایٹمی دھماکے،ایٹمی ہتھیاروں کی ذخیرہ اوربلوچ قوم پر ان کے اثرات)
تحقیق وترتیب:زرمبش لٹریری فورم
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا پسِ منظر اوروہ کیاوجوہات تھیں جن کی بناپاکستان نے 28 مئی 1998 ء کو بیک وقت پانچ ایٹمی دھماکے کیے؟ بلوچ قوم ان دھماکوں کے بعد کس کرب سے گزرہے ہیں اور دنیا پہ ان کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟اس مضمون میں ہم انہی موضوعات کاجائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کا تاریخی پس منظر
بی بی سی اردومیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انیس سو چون (1954)کی بات ہے، جب اس زمانے کے پاکستانی وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر آئزن ہاور سے ملاقات کی تھی اور پاکستان نے امریکہ کے ایٹم برائے امن (ایٹم فار پیس) کے منصوبہ میں شمولیت کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبہ میں تحقیق اور ترقی کے لیے جوہری توانائی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے لیے یہی پاکستان کا پہلا قدم تھاجس نے آگے چل کر28 مئی 1998ء میں اپنے اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ بلوچ عوام پہ قہر نازل کی۔
اسی سال یعنی 1954ء میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو انتہائی اہم فوجی معاہدوں ”سینٹو اور سیٹو”پہ دستخط ہوئے جن کی روسے امریکہ پاکستان کو روایتی اسلحہ فروخت کریگا اور اس کے بدلے پاکستان امریکہ کو اپنے ملک میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے گا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ جب ساٹھ کی دہائی میں ہندوستان جوہری تجربات کی تیاریوں میں مصروف تھا تو پاکستان نے کھلے عام ایٹمی پروگرام سے انکار کردیا تھا اور دوسری جانب جنوری 2004کے بی بی سی اردو کے رپورٹ کے مطابق پاکستان جوہری پروگرام کے لئے کافی سرگرم تھا لیکن پاکستانی مقتدرہ کاایک حصہ امریکی دباؤ کے تحت اس پروگرام کے حق میں نہیں تھا۔
اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کہ بین الاقوامی ادارے ایسے تجربوں کی ہمیشہ مخالفت کرتے آرہے ہیں۔ اسی لیے سرعام ایسامعاہدہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہاں البتہ جوہری توانائی کا امریکی عندیہ ہی اس بات کی نشاندہی کے لیے کافی ہے کہ امریکہ کی رضا اس پروگرام میں شامل تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جہاں ایک جانب سرد جنگ اپنے عروج پہ تھی،دنیا دوحصوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ایک جانب سوشلزم کے حامی ریاستیں اور دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک تھے۔1955ء کو سویت یونین اورافغانستان کے درمیان باہمی تعان کا ایک اہم معاہدہ ہوا تھا جس کی روسے سوویت یونین افغانستان میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کو عملی شکل دینے کی کوشش کررہی تھی۔
یہ اقدام سرمایہ دار ممالک کے سرخیل امریکہ کے لئے ناقابل برداشت امر بن گیا۔ انہی دنوں ایک مفروضہ مشہور ہوا کہ سوویت یونین افغانستان کے راستے گوادر سمیت خطے کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی مفروضے کوسرمایہ دارممالک ایک حقیقت کے روپ میں دیکھ رہے تھے اور انہوں نے سوویت یونین کو افغانستان تک محدود کرنے کے لئے سردجنگ کو عروج پر پہنچایااور اس مقصد کے لئے پاکستانی ریاست نہایت سستے داموں استعمال کے لئے دستیاب تھا۔
دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی منڈی اور آبادی بھارت ہے۔بھارت برطانیہ کے نوآبادی اور استحصالی نظام میں سوسال تک پسنے اورآزادی کے بعد تیزی سے اصلاحات اور سوشلزم کی طرف جھکاؤکی وجہ سے مغرب کا قابل اعتماد ساتھی نہیں تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ مغرب کو ڈر تھا کہ اگر بھارت اس خطے میں طاقت حاصل کر لے تواپنے اکھنڈ بھارت کے تصور کو عملی جامہ پہنائے گااورمغرب اپنے مفادات کے چوکیدارپاکستان سے محروم ہوگااور یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت اور سویت یونین کی قرابت داری مزید پروان چڑھی تو مغرب کے مفادات کو زک پہنچے گا۔
لیکن اس کے باوجود آنے والے دنوں میں امریکہ نے پاکستانی جوہری پروگرام کی مخالفت کیوں کی؟
دراصل ان دنوں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور امریکہ نے پاکستان کی بجائے بھارت کو اہمیت دینا شروع کیاتھااور 65 اور 71 کی جنگوں میں یقین دہانی کے باوجود امریکہ نے پاکستان کی کوئی مددنہیں کی توفرانس نے 1968ء میں جب پاکستان کو ”ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ” لگانے کی پیش کش کی تو پاکستانی صد رایوب خان امریکہ کی مخالفت کا متحمل نہ ہوسکا اوراس پیشکش پرپیشرفت نہ ہوا۔کہاجاتاہے کہ پاکستان کو پیشکش کی وجہ فرانس کا یہ یقین تھا پاکستان اس عمل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ جب بھٹو کا دورِ اقتدار آیا تو اس نے ایٹمی پروگرام پر ازسرنوکام شروع کرکے سابقہ ٹیم کو معطل کیا اور ان کی جگہ ہالینڈمیں مقیم ڈاکٹر قدیر خان کوبلالیااور مالی امداد کے لیے بھٹو نے اسلامی ممالک کا ہنگامی دورہ بھی کیا جہاں 1973ء میں بھٹو نے امریکی دباؤ کے باوجود ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔
بھٹو ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے کیونکہ اس دور تک پاکستان یورینیم اس مقدار میں افزودہ نہیں کرسکا تھا جو اس پروجیکٹ کے لیے کافی تھے۔
جب 1977ء میں بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اورفوج براہ راست اقتدار پر براجمان ہوگیا اس دوران امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا نیا باب کھل گیا اورجہاد کے نام پر دنیا بھر سے انتہاپسندوں کو پاکستان میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے تربیت دے کر انہیں افغانستان بھیجنا شروع کیا جہاں افغان حکومت اور ان کے اتحادی سوویت یونین کے خلاف جہاد کے نام پرمشہور جنگ لڑا گیا۔ جب تک سوویت فوجیں افغانستان میں موجود تھیں تو پاکستانی فوج مغربی بلاک کا دلدادہ اور اتحادی تھا،جمہوریت کے دعویدار مغرب کے لئے پاکستان میں فوجی رجیم قابل قبول تھا۔ اسی دوران پاکستان نے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی تھیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان 1984ء میں جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکا تھا۔ یہ وہ دور تھا جہاں افغانستان امریکہ اور پاکستان کی وجہ سے تباہی کے دہانے پہ پہنچ چکا تھاجس سے امریکہ اور مغرب کا وہ دیرینہ مقصد جس میں روس کو گرم پانیوں تک رسائی سے روکنا تھا حاصل کرلیا تھا۔یہی وجہ سے کہ امریکہ نے بھی پاکستان کے اس پروگرام کی مخالفت نہیں کی کیونکہ پاکستان ان کے مفادات کی تکمیل کے لیے ایک کارآمد ساتھی تھا۔ ان دنوں پاکستان نے ایٹمی تجربات اس لیے بھی نہیں کیے کہ ایک جانب اس کاروایتی حریف بھارت کھل کر اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھا رہا تھا اور دوسری جانب سویت یونین کے خلاف پاکستان اور امریکہ کی جنگ۔ جہاں امریکہ اور پاکستان دونوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر پاکستان نے ایٹمی تجربات کیے تو ممکن ہے کہ دنیا کی ہمدردی سویت یونین کے ساتھ ہوں۔ اسی لیے جوہری تجربات سے پاکستان گریز کرتا رہا اور اس کے چودہ سال بعد 28 مئی1998ء کوپاکستان نے مقبوضہ بلوچستان کے علاقے چاغی پر ایٹمی تجربہ کرکے بلوچ قوم پر صوراسرافیل پھونک دیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بلوچ لیڈرشپ کی رائے۔
اس سوال پر کہ ”پاکستان کا ایٹمی پروگرام عالمی اصولوں کے عین مطابق ہے؟
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کا کہنا ہے کہ”سی ٹی بی ٹی(Comprehensive Nuclear Test Ban Treaty)1996 ء میں قائم ہوا تھاجو کہ ایٹمی تجربات کی روک تھام کے حوالے سے سب سے بڑا معاہدہ ہے جس کا مقصد دنیا میں ہر قسم کی ایٹمی تجربات کی روک تھا م ہے لیکن پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ دوسرا معاہدہ این ٹی پی (Non Proliferation Treaty) کا کہنا ہے کہ عالمی امن کی خاطر تمام ایٹمی ہتھیاروں کو حذف کیا جائے،پاکستان اس کابھی حصہ نہیں ہے۔ لہٰذا میں سمجھتاہوں کہ ”پاکستان کے ایٹمی پروگرام اوربلوچستان میں ایٹمی دھماکے تمام عالمی قوانین کے خلاف ہیں“۔
عالمی قوتوں اور اداروں کے بارے میں چیئرمین کا کہنا ہے کہ”میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ کی رضاء کے بغیر پاکستان کوئی اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا ہوکیونکہ جن دنوں سویت یونین کے خلاف امریکہ اور پاکستان افغانستان میں لڑرہے تھے،انہی دنوں 1984ء میں پاکستان ایٹمی قوت بننے کی طاقت حاصل کر چکا تھالیکن میرے خیال میں اس وقت سوویت یونین کے شدید ردعمل کے خوف سے امریکہ نے دھماکہ کرنے سے منع کیا ہوگا“۔
”ہاں،یہ بات اہم ہے کہ نیو کلیئر سپلائزر گروپ نے پاکستان کو کسی رعایت کا مستحق نہیں سمجھااور آج تک پاکستان اس گروپ کا ممبرنہیں بن سکاہے اور2015ء میں جمہوریہ مارشل آئرلینڈ کی درخواست پر پاکستان کو نوٹس جاری کیے گئے“۔
ایٹمی تجربات کے لیے بلوچستان کے انتخاب پر چیئرمین کا کہنا ہے کہ ”اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتاکہ بلوچستان کی سرزمین اہم ہے,پاکستان کے لئے بلوچ قوم اہم نہیں۔ بلوچ وسائل کی لوٹ مار ہو یا یہاں ایٹمی تجربات کی تباہ کاریاں،غرض پاکستان نے ہمیشہ اس سرزمین اور قوم کا استحصال کیاہے اور جب تک غلامی کی تلوا ر ہم پر لٹک رہی ہے،پاکستان کاظلم و ستم جاری رہیں گے“
اس بارے میں بات کرتے ہوئے بی ایس او کے سابق چیئرمین بشیر زیب نے کہا کہ ”پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور ایٹمی تجربہ تمام عالمی اصولوں کے منافی بلکہ جنگی جرائم کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے تجربے بھی چھوٹے دیہاتوں اور بکھرے آبادیوں کے علاوہ تین بڑے شہروں خاران، نوشکی اور دالبندین کے درمیان راسکو میں اپنا ایٹمی تجربہ کیااوراس کے اثرات سے لوگ آج بھی نہیں نکل پائے ہی۔ آج تک وہاں لوگ مختلف امراض کا شکار اوربچے مفلوج معذور پیدا ہورہے ہیں۔“
اس سلسلے میں مزید بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین بشیر زیب کا کہنا تھا ”پاکستان نے اپنے روایتی حریف بھارت سمیت دنیاکو بلیک میل کرنے کے لئے تجربے کئے اوریہ بات کہ”پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کسی وقت دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے“بشیر زیب کے مطابق اس پروپیگنڈے کا مقصد بھی دنیاکو تھریٹ کرنا کہ کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بڑااقدام اٹھایا توہتھیارشدت پسند تنظیموں کے ہاتھ لگ سکتے ہی۔ اس کا مطلب یہ ہے پاکستان کہہ رہاہے کہ وہ ایسی صورت میں ایٹمی ہتھیاردہشت گردوں کا حوالہ کرے گا“
چیئرمین بشیر زیب کا کہناتھا”پاکستان کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں جس کی منفی اثرات دنیا اور خاص کر ایشاء پر نہیں پڑے ہی۔ پورے خطے میں یورینیم افزودگی اورایٹمی ہتھیاروں کی رجحان کو پروان چڑھانے میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے،جس کا واضح ثبوت ڈاکٹر قدیر کے انکشافات اور اعترافات سب کے سامنے عیاں ہیں“۔
بلوچ قوم پہ اثرات:۔
ایٹمی تابکاری کے اثرات انتہائی مہلک ہوتے ہیں۔ اس حوالے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ایک اہم رکن ڈاکٹر پاؤلو ایم بوس کا کہنا ہے کہ” ایسے تمام جانوروں کو ہلاک کردیا جائے جن کے بارے میں شبہ ہو کے وہ تابکاری سے متاثر ہوئے ہیں۔تمام پودے اور نباتات جو تابکاری جذب کر چکے ہیں اور اس علاقے کی مچھلی وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔تابکاری کی پیمائش کی جائے اور جہاں تابکاری صفر ہوجائے وہاں سے اس پورے علاقے کے گرد ایک حصار قائم کردیا جائے تاکہ تابکاری سے متاثرہ علاقے کے جانوروں کا گوشت، دودھ،مچھلی، پھل اور سبزیاں وغیرہ ہر قسم کی کھانے پینے سے متعلقہ اشیاء کسی بھی صورت انسانی غذا ء میں شامل نہ ہو سکیں۔”
اس ایک پیراگراف سے اندزاہ ہوتا ہے کہ ایٹمی تابکاری کے اثرات کتنے مہلک ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے ڈاکٹر پاؤلو ایم بوس کا مزید کہنا ہے کہ”جو لوگ تابکاری سے متاثر ہوچکے ہوں انہیں اگلے پانچ سے دس سال تک اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ عرصے تک ڈاکٹروں کی متواتر دیکھ بھال میں رہنا ہوگا۔” (ڈاکٹر پاؤلوایم بوس نے یہ معلومات جاپان کے ایٹمی پلانٹ میں حادثے کے بعد یکجا ء کیں)۔
ان کے علاوہ امراض جن میں کینسر، رسولی، سانس کی بیماری، معذور بچوں کی پیدائش، حمل کا ضیاع، بانجھ پن وغیرہ شامل ہیں۔یہ امراض اگر ایک ترقی یافتہ ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے تو پاکستان جیساغیر ترقی یافتہ ملک کیسے ان سے محفوظ رہ سکتا ہے اور دوسری بات کہ پاکستان کا ہمیشہ سے بلوچستان اوربلوچ قوم کے ساتھ رویہ حاکمانہ اور جابرانہ رہاہے تو ایک غلام قوم کے لیے قابض اورآقا کی طرف سے حفاظتی تدابیر کا امید ہی عبث ہے۔ پاکستان تو ہمیں 1948ء سے آج تک قتل گاہوں کی سیر کراتا آرہا ہے۔
بلوچستان:ایٹمی ہتھیاروں کی ٹھکانہ
پاکستان نے مقبوضہ بلوچستان میں ایٹمی دھماکوں کے بعد بلوچ وطن کو ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنا شروع کردیا بندوبست پاکستان میں بلوچستان کے علاوہ پنجاب میں شامل بلوچ علاقے خاص طورپرنمایاں ہیں لیکن ہم یہاں مقبوضہ بلوچستان پر توجہ مرکوزرکھیں گے۔
اس ضمن میں بلوچ ویب سائٹ ”دی بلوچستان پوسٹ“نے اپنے دوخصوصی رپورٹوں میں اس کا جائزہ اس طرح لیاہے۔
11اگست 2017کے خصوصی رپورٹ میں ”دی بلوچستان پوسٹ“ نے ایک امریکی تحقیقی ادارے (The Institute for Science and International Security)کے بلوچستان میں پاکستان کے ا یٹمی اسلحہ ذخیرہ کرنے کے حوالے سے تحقیقی رپورٹ کے بنیاد پر لکھا ہے
” پاکستان ایک محفوظ، مضبوط اور زیرزمین اسلحہ خانہ بلوچستان میں تعمیر کرچکا ہے جس کا مقصد بیلسٹک میزائل اور کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنا ہے۔ یہ زیر زمین کمپلیکس ایک بیلسٹک میزائل بیس کے قریب بنائی جارہی ہے جس کی شناخت ایف اے ایس The Federation of American Scientists کے ہینس کریسٹنسن نے کی۔
اس نیو کلیئر سائٹ کے تین داخلی راستے اور ایک امدادی علاقہ ہے۔ اس کمپلیکس کو کیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں بنایا گیا ہے۔ یہ بلوچستان اور سندھ کا سرحدی پہاڑی سلسلہ ہے۔ مذکورہ تھنک ٹینک نے اس وقت تحقیقات کا آغاز کیا جب ایک صحافی نے انہیں اس علاقے کے کو آرڈینٹس فراہم کیئے تھے۔
یہ علاقہ عالمی سرحدوں سے دور ایک محفوظ علاقے میں پہاڑوں کے وسط میں تعمیر کی گئی ہے۔ جو اسے ایک محفوظ جگہ بناتی ہے۔یہ اسلحہ خانہ ایک بیلسٹک میزائل بیس کے قریب واقع ہے جسے سب سے پہلے FAS نے دریافت کیا۔ جس کی تعمیر 2004 سے لیکر 2010 تک ہوئی۔ایف اے ایس اور امریکی تھنک ٹینک دونوں کا ماننا ہے کہ یہ میزائل بیس اصل میں بیلسٹک میزائل اور Transporter Erector Launchers کا ذخیرہ خانہ ہے۔یہ میزائل بیس کئی فوجی اڈوں کے جنوب میں واقع ہے، جن میں خضدار کا فوجی تربیتی مرکز، خضدار فوجی چھاونی اور خفیہ اداروں کے مرکز قائم ہے جو مضبوط حفاظتی حصار میں ہیں۔
یہاں چھاونی کے قریب سے بجلی کا ایک ہائی وولٹیج لائن بھی بچھائی گئی ہے جو پہاڑی سلسلے سے ہوتے ہوئے اس اسلحہ خانہ کے قریب تک پہنچتی ہے۔ بجلی کا یہ لائن ویران جگہوں سے گذرتا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ لائن اس پہاڑی اڈے کو بجلی مہیا کرنے کیلئے بچھائی گئی ہے۔
دی انسٹیٹوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی نے تین داخلی سرنگی راستوں کی بھی شناخت کی ہے جو کیرتھر پہاڑی سلسلے میں واقع اس اسلحہ خانے تک رسائی دیتے ہیں۔جن میں سے دو اس علاقے میں واقع ہیں جن کا پتہ ایک صحافی نے دیا تھا۔
مذکورہ تھنک ٹینک کا ماننا ہے کہ تعمیر کا آغاز 2009 -2010 میں ہوئی اور یہ اگلے دو سالوں تک چلتا رہا۔ اس سائٹ کا سپورٹ ایریا کو بلا واسطہ کئی داخلی سرنگوں سے ایک کچی سڑک جوڑتی ہے۔ شناخت کیئے گئے تین داخلی راستے بہت وسیع ہیں جن سے بڑی گاڑیاں بآسانی گذر سکتی ہیں۔
ادارے نے اس علاقے میں 2011 کے مقابلے میں 2014 میں سیکیورٹی کے تعداد میں بے تحاشہ اضافے کا بھی مشاہدہ کیا۔ اس سائٹ کے بابت کوئی بھی معلومات عام نہیں کی گئی ہیں لیکن یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان اس سائٹ کی تعمیر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے اور بوقت ضرورت یہاں سے ایٹمی حملے کرنے کیلئے کی ہے۔ یہ علاقہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کیلئے موزوں ترین جگہ ہے کیونکہ ایٹمی حملہ کرنے کیلئے پاکستان کا چنندہ ہتھیار وار ہیڈ میزائل ہیں۔ لیکن یہ علاقہ بلوچستان میں واقع ہے۔ جہاں اب تک آزادی کی کئی تحریکیں اٹھ چکی ہیں اور پاکستان کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کیلئے ایک ایسی جگہ ضرورت ہے جو اسکے عالمی سرحدوں خاص طور پر بھارت سے بہت دور واقع ہو۔
نامور بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے 2016 میں ٹویٹر پربتایا تھا کہ کس طرح پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بلوچستان کے علاقوں میں زخیرہ کر رہا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ خضدار کے علاقے ساسول میں پاکستانی افواج علاقہ مکینوں کو وہاں سے نکال رہا ہے، تاکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو محفوظ رکھ سکے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی تفتیشی رپورٹ اور انسٹیٹوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکورٹی کی رپورٹ، بلوچ لیڈر کے دعویٰ کو سچ ثابت کرتی ہے۔“
بلوچستان اورکینسر
اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان نے بلوچ سرزمین پر بڑے پیمانے پر ایٹمی اسلحے ذخیرہ کئے ہیں اوروقتافوقتاایٹمی وارہیڈلے جانے میزائلوں کی تجربات کرتارہاہے اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔28مئی 1998کے ایٹمی دھماکوں اور باربارمیزائل تجربوں نے بلوچستان کو ایٹمی تابکاری کے جنہم میں تبدیل کردیا ہے۔
بلوچستان میں طویل قحط سالی،کینسر کی وبا،ہزارہاسالو ں سے رواں قدرتی چشموں کی سوکھ جانا،جنگلی حیات،نباتات کی معدومی کی ایک بڑی وجہ بلوچستان میں ایٹمی ہتھیاروں کے تجربوں کو قراردیاجاتاہے اس ضمن میں ”دی بلوچستان پوسٹ“8اکتوبر2017کوشائع ہونے والے اپنے ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھتاہے
”بلوچستان میں کینسر جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس بنیادی وجہ بلوچستان میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے تجربات اور زیر زمین کیمیائی ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی ہے۔ جن کی تابکاری کی وجہ سے ملحقہ علاقوں میں نا صرف کینسر بلکہ کئی جلدی امراض بھی پھیل رہے ہیں۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ روان تابکاری کینسر پیدا کرنے کا ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ روان تابکاری ایٹم کے اندر کے ذرات یعنی پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون اور برقی مقناطیسی لہروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ان تابکاریوں میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ جب وہ جوہر سے ٹکراتے ہیں تو پھر انہیں سالموں میں تبدیل کردیتے ہیں۔
دنیا میں زیادہ تر لوگ کم یا زیادہ، قدرتی یا مصنوعی تابکار لہروں کے زیر اثر ہوتے ہیں جس کا انحصار خطے پر ہے لیکن جب اس رواں تابکاری کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ انسان کے جسم کے متاثر کرتا ہے۔ جو مختلف بیماریوں سمیت موت کا سبب بن جاتا ہے حتیٰ کہ اگر یہ کم شدت میں بھی ہو لیکن یہ مسلسل انسانی جسم کو متاثر کررہا ہو تو پھر یہ کینسر کا سبب بنتا ہے کیونکہ یہ انسانی ڈی این اے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے خاص طور پر بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جن کی جسمانی نشونما اب تک جاری ہوتی ہے۔
جوہری پلانٹس، ٹیسٹ سائٹس اور جوھری ہتھیاروں کے ذخائر ایسی تابکاری پھیلانے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں کے فضلہ جب سڑنا یا ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں تو پھر انکی توانائی فضا ء میں تحلیل ہوتی جاتی ہے، انسانی جسم جب ایسے ماحول میں آشکار ہوتی ہے، اس میں کینسر پیدا ہونے کی گنجائش کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ تابکاری انسانی جسم کے خلیات کو مارنا شروع کرتا ہے یا پھر تبدیل کرنا شروع کرتی ہے۔ اگر انکا بروقت علاج نا ہو تو پھر یہ کینسر کا شکل اختیار کردیتی ہیں۔
بلوچستان میں ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ 1998 میں پاکستانی ایٹمی تجربات کے بعد چاغی اور ملحقہ علاقوں بلکہ پورے ڈسٹرکٹ چاغی و نوشکی تک میں کینسر سمیت مہلک جلدی بیماریوں کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان ایٹمی تجربات نے گوکہ پاکستان کو فائدہ دیا ہو لیکن بلوچستان میں خاص طور پر چاغی کے ملحقہ علاقوں میں یہ ایک اپاہج نسل پیدا کررہی ہے۔ حالیہ دنوں میں خضدار میں بھی کینسر کے کیسز میں بہت اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
بلوچ قوم پرست حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اسکی بنیادی وجہ خضدار کے قریب پاکستانی خفیہ ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرہ خانوں کا قیام ہے۔ جہاں زیر زمین جوہری ہتھیاروں کو رکھا جاتا ہے۔ اب تک تفصیلات واضح نہیں لیکن یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ وہاں خفیہ نیوکلیئر پلانٹ بھی قائم ہوں جہاں یورینیم افزودگی کے تجربات ہوتے ہیں۔“
بلوچستان میں کینسر وباکی صور ت اختیارکرچکاہے اس ہولناک صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ بلوچستان کو نظراندازکرنے والے اور یک طرفہ پاکستان بیانئے کی تشہیرپر معمورپاکستانی میڈیابھی ا س بات کا اقرار کرتاہے کہ بلوچستان کو کینسر تیزی سے نگل رہاہے اس ضمن میں سماSAMAAٹی وی میں 4فروری2019کے رپورٹ میں اقرارکرتاہے
”بلوچستان اس وقت کینسر جیسے موذی مرض کی شدید لپیٹ میں ہے، شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب بلوچستان کے کسی کونے سے کینسر زدگی کے شکار کسی مریض کی خبر نہیں آتی ہو، اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ان مریضوں میں بیشتر تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ پھر گزشتہ چند برسوں میں کینسر نے بلوچ نوجوانوں کا تو جیسے گھر ہی دیکھ لیا ہو، ایسے ایسے بانکے نوجوان اس مرض کی بھینٹ چڑھ گئے کہ جن کے ذکر پر ہی آنکھوں کے کناروں پر نمی در آتی ہے، ان نوجوانوں میں مستقبل کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے ایسے کتنے ہی ذہین و فطین طالب علم تھے جو یقینا بلوچ قوم کا اثاثہ تھے، جن کی آنکھوں کی روشنی اور چمک کینسر زدگی میں بھی ماند نہ پڑی، مگر اب وہ ہم میں نہیں اور اب بھی ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جو ہر روز اس عفریت کے شکنجے میں کستے جا رہے ہیں۔
جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے جن میں خواتین میں چھاتی کے کینسر کا مرض نمایاں ہے، دوسری طرف اتنے سارے مریضوں کے لیے بلوچستان حکومت کی جانب سے بنائے گئے بی ایم سی کے کینسر وارڈ کو ملنے والی رقم بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے، دوسری طرف اپنے پیاروں کو شدید تکلیف میں مبتلا دیکھ کر اور حکومتی عدم توجہی اور بلوچستان میں کینسر اسپتال نہ ہونے کے باعث بیشتر مریض کراچی اور لاہور کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
”بلوچستان میں کینسر کے مر یضوں کی تعداد میں اضافے پر ڈاکٹر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ صوبے میں گذشتہ دو سال کے دوران کینسر کے چار ہزار سے زائد مریضوں کا اندراج کیا جا چکا ہے جن میں کمسن بچے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
کو ئٹہ میں بو لان میڈیکل کالج کے شعبہ کینسر کے سر براہ ڈاکٹر زابد محمود کا کہنا ہے کہ سال 2015 کے دوران بی ایم سی میں پینتیس سو اور 2016 میں مزید پانچ سو افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی، جن میں دو سو خون کے کینسر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر مر یض چاغی، ژوب، لورالائی، چمن، پشین، پنجگوراور گوادر آتے ہیں جو مختلف قسم کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بروقت تشخیص سے یہ مرض قابل علاج ہو سکتا ہے لیکن تاخیر کی صورت میں مسائل پیش آتے ہیں
ایشیائی ممالک میں سے پاکستان میں کینسر کے مر یضوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے جہاں تین لاکھ افراد ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے چھوٹے ”صوبے“بلوچستان میں جہاں دور افتادہ علاقوں میں صحت کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، کینسر کے مر یضوں کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔
بلوچ عوام پہ کیا گزری
متاثرہ لوگوں کی زبانی:
زرمبش لٹریری فورم نے ان لوگوں کی رائے معلوم کئے جن پر یہ قیامت گزری جن میں چند لوگوں کی رائے شامل کی جاتی ہے۔
۱۔ محمدنور جوچھتر کے پہاڑی سلسلہ میں رہائش پذیر تھا۔ان دھماکوں کے بعد وہ ”ریکو ”نوشکی ہجرت کرگیا۔ان کا کہنا تھاکہ ”اُس وقت جب دھماکے ہوئے تو اس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں جاری چشمے جو کہ صدیوں سے ہمارا ذریعہ معاش تھا، اس میں سیاہی مائل ذرات شامل تھے۔اس پانی کے پینے سے ہمارے لوگوں کے منہ سے خون کے قطرے رسنے لگے اور شدید الٹیاں ہونے لگی۔اسی وجہ سے ہم وہاں سے نقل مکانی کرنے پہ مجبور ہوگئے۔ ان کے علاوہ ان دھماکوں سے پہلے ہماری خواتین زچگی کے دوران کبھی ہسپتال نہیں گئے تھے کیونکہ انہیں اس دوران اتنی بڑی تکالیف کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا تھالیکن ان دھماکوں کے بعد حمل کے دوران بہت سی خواتین کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔”
۲۔عبدالقادر ’مالدین‘راسکوہ کا رہائشی ہے۔ ان کے مطابق ”ان دھماکوں کے کچھ ہی عرصے بعد امراضِ چشم زیادہ ہونے لگی حالانکہ اس سے قبل علاقے کا کوئی مکین اس مرض میں مبتلا نہیں تھا۔ امراضِ چشم میں آنکھوں کے موتیوں کے علاوہ شب کوری کی بیماری بھی عام ہونے لگی اور آج تک ہمارے علاقے میں بہت سارے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔”
۳۔۔اسماعیل بلوچ جو کہ خاران شہر کا رہائشی ہے۔ان کاکہنا ہے کہ ”امراضِ چشم کی بیماری شدت اختیار کرگئی۔آج بھی خاران کے آنکھوں کے ہسپتال میں ہزاروں کی تعداد میں مریضوں کا علاج ہوچکا ہے۔ان امراض میں آنکھوں کی موتیاں قابلِ ذکر ہے۔ حالانکہ اس علاقے میں اس سے قبل ہمارے لوگ اس بیماری کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔”
۴۔کمال بلوچ کا تعلق خاران سے ہے اوربلوچ نیشنل موومنٹ کا ایک سرگرم کارکن ہیں،ان کا کہنا ہے کہ” ان دنوں میں نو عمر تھا لیکن میں وہ واقعہ کبھی بھول نہیں سکتا جب میری دادی جو کہ اس وقت ۰۵ سال کی ہوگی اچا نک آنکھوں کی مرض میں مبتلا ہوگئی جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی بینائی شدید متاثر ہوئی۔”
۵۔ راسکوہ کا ایک رہائشی علی جان سیاہ پاد کا کہنا ہے کہ” ایٹمی دھماکوں کے بعد انسانی امراض نے تو علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارئے کجھور کے باغات بھی خشک ہونا شروع ہوئے اور آنے والے دو سالوں میں وہ فقط درختوں کی خشک ٹہنیاں ہی ہماری میراث بن گئیں۔”
۶۔اس بات کی گواہی آج بلوچستان کا ہر فرددیتا ہے کہ قحط اور تابکاری اثرات کی وجہ سے لوگوں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ما ل داری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اس زمانے میں لوگوں نے مال مویشیوں کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنا شروع کیا جہاں 5000 سے6000 روپے والے جانور کی قیمت100 سے200 روپے تھی۔
۷۔ ابراہیم جو کہ چاغی کا رہائشی ہے۔کہہ رہاتھا کہ” آج بھی اگر چاغی،خاران اورخاص کرراسکوہ کا دورہ کیا جائے تو وہاں ان معذوروں کی کمی نہیں جو ان دھماکوں کے بعد پیدا ہوگئے تھے۔”
۸۔۔ چاغی کا ایک رہائشی سلام بلوچ کہتا ہے کہ” ان دھماکوں کی وجہ سے بہت سارے انسانی امراض کے ساتھ ہمارے علاقے کے چشمے بھی خشک ہوگئے تھے جس کی وجہ سے چاغی اور اس کے گرد و نواح سے ایک بڑی آبادی مہاجرت کرنے پہ مجبور ہوا۔اس کے علاوہ آج بھی وہ علاقہ بری طرح متاثر ہے جہاں پانی کی سطح جو کہ ان دونوں ۵۱ سے ۰۲ فٹ تھا آج ۰۰۱ فٹ سے زیادہ نیچے چلا گیا ہے اور تابکاری ہی کی وجہ سے فصل کی مقدار بھی گھٹ گئی ہے۔”سلام بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ آج تک ہم تابکاری کے اثرات کا بری طرح شکار ہیں جہاں گزشتہ تین مہینوں میں چاغی کے رہائشیوں کے ۰۵۵ سے زائد” اپینڈکس ” کے آپریشن کوئٹہ میں ہوئے ہیں ”
۹۔ظفر بلو چ نال سے تعلق رکھتے ہیں اورسیاسی ورکرہیں نے اس حوالے سے کہا کہ”قحط کے دنوں میں خاران سے بہت سارے خاندان ہمارے علاقے کی جانب بھی ہجرت کرچکے تھے۔ ایک دن میں نال ندی کے دوسری جانب چلاگیا تو وہاں دیکھتا ہوں کہ بہت سارے جانوروں کے دھانچے جن میں اونٹ اور بھیڑ بکریاں شامل تھے بکھرے پڑے تھے۔ میں نے وہاں کے ایک بزرگ سے اس حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد جو یہ قحط آئی ہے یہ اسی کی دین ہے۔”
یہ تو فقط چند لوگوں کی رائے ہے۔
اگر بین الاقوامی ادارے اپنا فرض جان کراس انسانی مسئلے پر توجہ دیں تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی تابکاری کے اثرات نے بلوچ قوم کو کسی بھی ایٹمی حادثے یا تجربے سے بہت زیادہ زیادہ متاثر کیاہے،حالانکہ جہاں بھی ایٹمی دھماکہ کیاگیاہے یا ایٹمی حادثہ ہوا ہے تو وہاں تابکاری کے اثرات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے لیکن بلوچستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں پاکستان نے اس جانب کوئی مثبت قدم اٹھایا ہو۔ بلوچستان پر پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے ذریعے صورِاسرافیل پھونک دیا اور نعرہ تکبیر بلند کیا۔یہ رپورٹ مرتب کرتے وقت مجھے ایک عالم دین کے وہ الفاظ یاد آئیں جب انہوں نے جمعہ کی نماز کے دوران اپنی خطبے میں فرمایاتھا، ”یہ نعرہ ہی اس بات کی نشاندہی کے لیے کافی ہے کہ بلوچستان کو قربانی کا جانور سمجھ کر تکبیر دے دیا گیا” یہ مشہور بلوچ عالم دین مولانا عبدالعزیز صاحب کے الفاظ ہیں جو ان دنوں کوئٹہ کے علاقے ایریگیشن کالونی کے جامعہ مسجد میں پیش امام تھے۔