پاکستانی تارکین وطن کو کشتی کے ڈیک سے زبردستی نچلے حصے میں لایا گیا: گارڈین

0
43

چند روز قبل یونان میں ڈوبنے والی کشتی میں سیکڑوں تارکین وطن کی ہلاکتوں کے حوالے سے نئی تفصیلات منظر عام پر آ رہی ہیں۔

’گارڈین‘ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو اس ٹرالر نما کشتی کے ڈیک سے زبردستی کشتی کے نچلے حصہ میں دھکیل کر دیگر قومیتوں کے تارکین وطن کو کشتی کے ڈیک پر لایا گیا۔ اس اقدام کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کے ڈوبنے کا زیادہ امکان تھا۔

رپورٹ کے مطابق خواتین اور بچوں کو بھی ہولڈ میں سفر کرنے پر مجبور کیا گیا، جس کی وجہ سے خواتین اور بچوں کی ہلاکتیں بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔

زندہ بچ جانے والوں کی طرف سے کوسٹ گارڈز کو بتائی گئی لیک ہونے والی شہادتوں کے مطابق پاکستانیوں کو ڈیک سے زبردستی نیچے لایا گیا، دوسری قومیتوں کو اوپر والے ڈیک پر جانے کی اجازت دی گئی، جہاں ان کے ڈوبنے سے بچنے کا زیادہ امکان تھا۔

شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو ہولڈ میں بند کر دیا گیا تھا۔ ایسا بظاہر کشتی پر بھیڑ کی وجہ سے مردوں سے محفوظ رکھنے کیلئے کیا گیا تھا۔ تاہم اس اقدام کی وجہ سے ان کی زیادہ ہلاکتوں کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ مبصرین کو معلوم ہوا کہ پاکستانی شہریوں کو بھی ڈیک کے نیچے رکھا گیاتھا۔ جب وہ تازہ پانی کی تلاشی میں اوپر آنے کی کوشش کرتے یا فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے تو عملے کے ارکان ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والوں میں کسی عورت یا بچے کے شامل ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کم از کم 298پاکستانی ہلاک ہوئے، جن میں سے 135پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے تھے۔

ایک اندازے کے مطابق جہاز میں تقریباً 400پاکستانی سوار تھے۔ وزارت خارجہ نے اب تک تصدیق کی ہے کہ زندہ بچ جانے والے 78میں سے صرف12کا تعلق پاکستان سے تھا۔

کشتی کے حالات اس قدر بھیانک تھے کہ اس کے ڈوبنے سے پہلے ہی تازہ پانی ختم ہونے کی وجہ سے 6افراد ہلاک ہو چکے تھے۔

ایک مراکشی اطالوی سماجی کارکن نوال سوفی نے بتایا کہ مسافر کشتی کے ڈوبنے سے ایک دن پہلے سے ہی مدد کیلئے التجا کر رہے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ ’میں گواہی دے سکتی ہوں کہ یہ لوگ کسی بھی اتھارٹی سے بچانے اور مدد کرنے کیلئے کہہ رہے تھے۔“

تاہم یونانی حکومت کے مطابق مسافروں نے کوسٹ گارڈ کو بتایا کہ مدد کیلئے کوئی درخواست نہیں کی گئی، کیونکہ وہ اٹلی جانا چاہتے تھے۔

نئی گواہی یہ بھی بتاتی ہے کہ ٹرالر کا انجن ڈوبنے سے کچھ دن پہلے ہی فیل ہو گیا تھا۔ اس گواہی کے بعد یہ امکان زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ عملے نے مدد طلب کی ہوگی۔ ایک تارک وطن نے تباہی کی تحقیقات کی نگرانی کرنے والے کوسٹ گارڈز کی موجودگی میں کہا کہ ”ہم نے جمعہ کی صبح فجر کے وقت سفر شروع کیا۔ ہم میں سے تقریباً700افراد جہاز میں سوار تھے۔ ہم تین دن تک سفر کر رہے تھے اور پھر انجن فیل ہو گیا۔“

کوسٹ گارڈز کے بیانات میں بھی تضاد موجود ہے۔ کوسٹ گارڈز نے پہلے کہا کہ انہوں نے کشتی سے محتاط فاصلہ رکھا۔ تاہم جمعہ کو ایک حکومتی ترجمان نے تصدیق کی کہ کشتی کو مستحکم کرنے کیلئے رسی پھینکی گئی تھی۔ کشتی کے ساتھ کوسٹ گارڈز کی طرف سے پھینکی گئی رسی جڑی ہوئی تھی۔ تاہم یونانی حکام نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔

جرمنی کی اوسنابروک یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فارمائیگریشن ریسرچ اینڈ انٹر کلچرل اسٹڈیز کے موریس اسٹیرل نے کہا کہ ’ہیلینگ کوسٹ گارڈ وزن میں اچانک تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ اچانک تبدیلی کی کیا وجہ تھی؟ کیا بورڈ پر گھبراہٹ تھی؟ کیا انہیں کچھ فراہم کرنے کی کوشش کے دوران کچھ ہوا؟ یا اسے کھینچا گیا تھا؟ اور کیا اس کھینچنے کی وجہ سے کشتی الٹ گئی۔‘

اس بارے میں بھی سوالات ہیں کہ آیا یونانی کوسٹ گارڈز کو بوڑھے ٹرالر کو حفاظت تک لے جانے کیلئے پہلے مداخلت کرنی چاہیے تھی۔ سرکاری حکام نے تصدیق کی ہے کہ گشتی کشتیاں اور مال بردار بحری جہاز منگل کی سہہ پہر سے تارکین وطن کی کشتی (ٹرالر) پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

اسٹیرل کے مطابق یورپی یونین کے بہت سے ملکوں نے سٹریٹیجک نظر انداز یا ترک کرنے کا طریقہ اپنا لیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ’درحقیقت وہ تارکین وطن کی کشتیوں سے چھپ رہے ہیں، تاکہ انہیں امدادی کارروائیوں کی طرف متوجہ ہی نہ ہونا پڑے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک حکمت عملی بنائی جا رہی ہے کہ بچاؤ کی کوششیں شعوری اور فعال طور پر سست ہو جاتی ہیں۔‘

اب پیر سے توجہ بحری جہاز کے انچارج مصری اسمگلنگ نیٹ ورک کی طرف ہوتی، جب 9مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں