مظفر آباد: پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے صدر کے دستخط سے سرکاری ملازمین کے احتجاج کو روکنے کیلئے ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق ہڑتال کرنے، ہڑتال یا احتجاج پراکسانے، دفتر کی تالہ بندی کرنے یا کام سست کرنے پر ملازمت سے برطرفی کی سزا دی جائے گی۔ یہ آرڈیننس رجسٹر ڈ اور غیررجسٹرڈ تنظیمات اور ایسوسی ایشنوں پر لاگو ہو گا۔
منگل کے روزصدر نے حکومت کی جانب سے بھیجے گئے ’آزاد جموں و کشمیر ایمپلائزایسوسی ایشن (رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن) ترمیمی آرڈیننس 2023ء‘ پر دستخط کئے۔ یہ آرڈیننس ’آزاد جموں و کشمیر ایمپلائز ایسوسی ایشن (رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 2016ء میں ترمیم کیلئے جاری کیا گیا ہے۔
آرڈیننس کے مطابق ایکٹ کی دفعہ 17 میں دو ذیلی دفعات 3 اور 4 شامل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ دفعہ 19 میں ذیلی دفعہ 3 کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
ترمیم کے مطابق دفعہ 17 میں ذیلی دفعہ 3 میں لکھا گیا ہے کہ ”کسی دوسرے قانون میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود بدتمیزی یا حکومتی احکامات/ہدایات کی خلاف ورزی یا حکومت کے کسی بھی محکمے کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے یا دوسرے سرکاری ملازمین کو ہڑتال کیلئے اکسانے یا کسی ملازم کی طرف سے سست روی یا احتجاجی مارچ کرنے کی صورت میں حکومت کے خلاف بغاوت اور مس کنڈکٹ تصور کی جائے گی، جیسا کہ مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 2 (1) اور آزاد جموں و کشمیر کے سرکاری ملازمین (کنڈکٹ) رولز 1981ء میں بیان کیا گیا ہے۔ ملزم کو مجاز اتھارٹی کے ذریعے ملازمت سے برخاست کر دیا جائے گا۔“
ذیلی دفعہ 4 میں لکھا گیا ہے کہ ”مندرجہ بالا ذیلی دفعہ 1، 2 اور 3 کا اطلاق ایسی خود ساختہ انجمنوں کے ملازمین پر بھی ہو گا، جو اس ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہیں۔“
آرڈیننس کے مطابق ایکٹ کی دفعہ 19 کی ذیلی دفعہ 2 کے بعد ذیلی دفعہ 3 کا بھی اضافہ کیا جائیگا، جس کے مطابق محکمہ کا وہ افسر تنظیم، عہدیدار یا ملازم کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے، جسے اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ کے سربراہ کی طرف سے اختیار دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ فروری 2016ء میں ایمپلائزایسوسی ایشن (رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 2016ء کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا اور تمام ملازم تنظیموں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ایک ماہ کے اندر اس ایکٹ کے ذریعے سے رجسٹریشن حاصل کریں۔ کچھ ملازم تنظیموں نے اس ایکٹ کے تحت رجسٹریشن حاصل کر لی تھی، جبکہ کئی ایسی تنظیمات بھی ہیں، جنہوں نے اس ایکٹ کے تحت رجسٹریشن حاصل نہیں کی ہے۔
متذکرہ بالا ایکٹ کے مطابق ملازم تنظیمیں کسی قسم کی ہڑتال نہیں کر سکتیں، نہ ہڑتال یا احتجاج پر کسی کو اکسا سکتی ہیں، دفتری اوقات میں کوئی تنظیمی کام، یا میٹنگ نہیں کی جا سکتی، کسی ملازم کو تنظیم میں شامل ہونے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ایکٹ کے مطابق کوئی تنظیمی عہدیدار افسران کے ساتھ براۂ راست ملازمین کے مسائل پر بات نہیں کر سکتا، دفتر کے ٹیلی فون، بجلی یا کسی بھی طرح کی سہولیات کو روک نہیں سکتا، دفتر کی تالہ بندی یا افسر کے ساتھ اونچی آواز میں بات یا بدتمیزی نہیں کر سکتا۔
تنظیمات ملازمین کے مسائل کے حوالے سے تحریری طور پر ایک درخواست دینے کی اہلیت رکھتی ہیں، جس پر محکمانہ طور پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
مذکورہ ایکٹ کے تحت ماضی میں افسران کی جانب سے درج کروائی گئی شکایات پر مختلف محکمہ جات سے تنظیموں کے عہدیداران کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا تھا۔ تاہم لمبا عرصہ قانونی جنگ لڑنے کے بعد وہ ملازمین بحال ہو گئے تھے۔
تاہم اب ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ملازم تنظیموں کی حد تک تمام تر دیگرقوانین اور حقوق کو ختم کر کے سروسز ایمپلائز ایسوسی ایشن (رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 2016ء کو ہی حتمی قرار دیا گیا ہے۔ ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی دوسرے قانون کی موجودگی کے باوجود ہڑتال، احتجاج، بدتمیزی، کار سرکار میں رکاوٹ، احتجاجی مارچ یا کسی کو احتجاج پر اکسانے کو حکومت کے خلاف بغاوت اور مس کنڈکٹ تصور کیا جائے گا۔
دوسرے لفظوں میں آئینی طور پرتمام شہریوں کو حاصل انجمن سازی، اجتماع، احتجاج اور اظہار رائے کی آزادی کے حق کو سرکاری ملازمین کی حد تک چھین لیا گیا ہے۔
قبل ازیں ایکٹ میں ہڑتال، احتجاج، تالہ بندی اور کام میں رکاوٹ ڈالنے کی صورت جرمانے، تنخواہ کی بندش اور ڈسپلنری ایکشن جیسی سزائیں درج کی گئی تھیں، تاہم اب ترمیم کی صورت میں ایسا اقدام کرنے پر ملازمت سے ہی برخاست کئے جانے کی سزا متعین کر دی گئی ہے۔
مذکورہ آرڈیننس کو سیاسی و سماجی تنظیموں، ٹریڈ یونینوں اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے مسترد کیا گیا ہے اور اسے ایک کالا قانون قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (پی ٹی یو ڈی سی) کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقوق پر قدغن لگانے، آمریت مسلط کرنے جیسا عمل ہے۔ اس خطہ میں پہلے ہی ٹریڈ یونین کا حق محنت کشوں سے چھینا گیا تھا، اب ملازمین پر تنظیموں کے ذریعے حقوق مانگنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ترجمان کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اس کالے قانون کو نافذ ہوئے 7 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران صرف اساتذہ کی ہی بات کی جائے تو اساتذہ کے اپ گریڈیشن کے مطالبہ پر ان 7 سالوں کے دوران اس ایکٹ کے تحت دی گئی تحریری درخواستوں پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اساتذہ نے جب مجبور ہو کر احتجاج کا راستہ اختیار کیا تو حکومت نے اساتذہ کے رہنماؤں کو ملازمتوں سے برطرف کرنے کی منصوبہ بندی بنا کر تمام محنت کشوں پر مزید سخت گیر کالا قانون ایک آرڈیننس کی صورت نافذ کر دیا ہے۔
پی ٹی یو ڈی سی کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہم اس قانون کو مسترد کرتے ہیں۔ جموں کشمیر اور پاکستان بھر میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور دفاع کیلئے جدوجہد کرینگے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کالے قانون کو فی الفور واپس لیا جائے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس خطے میں محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کا حق فراہم کیا جائے۔
جے کے این ایس ایف کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ٹریڈ یونین اور طلبہ یونین محنت کشوں اور طلبہ کا بنیادی حق ہے، جس پر اس حکمران اشرافیہ نے ڈاکہ مار رکھا ہے۔ اب مزید کالے قوانین نافذ کر کے بنیادی انسانی حقوق چھیننے جیسے غیر آئینی اور غیر انسانی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کے ان ہتھکنڈوں کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کالے قوانین کے خلاف ہر سطح پر جدوجہد کی جائے گی۔