قبائلی ضلع کرم میں چھڑپیں، ہلاکتوں کی تعداد 11 ہو گئی

0
41

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں دو قبائل کے درمیان زمین کے ایک ٹکڑے پر جاری لڑائی میں منگل کو مزید 2 افراد ہلاک ہو گئے، جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 11 ہو گئی ہے۔ جھڑپوں کے دوران اب تک 67 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

’ڈان‘ کے مطابق بوشہرہ ڈنڈار کے علاقے میں 5 روز قبل شروع ہونے والی جھڑپیں خارکلے، بالش خیل، پیواڑ، گیڈو، تری مینگل، کرمان پاڑا چمکنی، مقبل اور کنج علی زئی سمیت دیگر علاقوں تک پھیل گئی ہیں۔

سڑکیں بند ہونے سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو اشیا خوردونوش، ادویات اور ایندھن کی مسلسل قلت کا سامنا ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں اور معمولات زندگی بھی متاثر ہو کر رہ گئے ہیں۔

دو روز قبل کرم کی کشیدہ صورتحال کے خلاف اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ہلاکت خیز جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ٹویٹر پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی تشویشناک اطلاعات ہیں، جو مقامی تنازعات کو جنم دے رہی ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’حکومت کو فوری طور پر تمام فرقہ وارانہ اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے اور اس خطے میں امن و امان کو بحال کرنے کا عہد کرنا چاہیے۔ ہم ریاست کو یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ اس نے 2018ء میں نئے ضم شدہ اضلاع کو مرکزی دھارے میں لانے کا عہد کیا اور تمام شہریوں کو صحت، تعلیم اور روزگار تک رسائی فراہم کرتے ہوئے ان کے زندگی اور سلامتی کے حق کو محفوظ بنایا تھا لیکن فنڈز مختص کئے جانے کے باوجود یہ عہد پورا نہیں ہوا۔‘

’بی بی سی‘ کے مطابق اس تنازعے کا بنیادی سبب زمین کا تنازع تھا اور یہ تنازع بھی ایک ہی قبیلے کے کچھ اراکین کے درمیان تھا، جن میں سے کچھ گھرانوں کا تعلق اہل سنت اور کچھ کا تعلق اہل تشیع سے تھا۔

ضلع کرم میں ماضی میں بھی مقامی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے علاوہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور اب بھی اس میں بعض عناصر اسے فرقہ وارانہ تشدد کا سلسلہ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم وفاقی وزیر ساجد حسین طوری ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف قبائلی تنازعات ہیں جو شاملات پر شروع ہوئے اور ان میں شیعہ یا سنی کے کوئی اختلافات نہیں ہیں۔

مقامی صحافیوں نے بتایا کہ اپر کرم میں بوشہرہ کے علاقے میں چار روز پہلے بنگش قبیلے سے ہی تعلق رکھنے والے دو قبائل کے جھڑپیں شروع ہوئی تھیں جنھیں جرگہ اور انتظامیہ کی کوششوں سے جنگ بندی کرا دی گئی تھی۔

مقامی صحافی ریاض چمکنی نے بتایا کہ اس کے بعد لوئر کرم میں جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جہاں مختلف قبائل ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے رہے اور مورچہ زن رہے ہیں۔

اس کے بعد سنٹرل کرم میں بھی مختلف قبائل کے درمیان کل آور آج جھڑپیں شروع ہوئی ہیں جس میں جانی نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک جگہ پر کچھ حالات بہتر ہوتے ہیں تو دوسری جگہ پر حالات خراب ہو جاتے ہیں۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ سال 2007ء کے بعد سے اب ایک مرتبہ پھر اس سال اتنی شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں اور اب تک حکومت حالات کو قابو میں کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان جھڑپوں کی وجہ سے علاقے میں خوف پایا جاتا ہے کیونکہ علاقے میں ساری رات شدید فائرنگ کی آوازیں سنی جاتی ہیں۔

ضلع کرم میں اس سال مئی میں 5 اساتذہ سمیت 8 افراد کے قتل کے بعد حالات کشیدہ رہے ہیں۔ واقعات کچھ یوں رپورٹ ہوئے تھے کہ ایک گاڑی پر فائرنگ سے محمد شریف نامی استاد کو قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر پیغامات شیئر کیے گئے تھے کہ شیعہ اکثریتی علاقے میں سنی استاد کو قتل کر دیا گیا ہے جس کے بعد ایک سکول کے سٹاف روم میں موجود اساتذہ سمیت سکول کا عملہ موجود تھا جن پر نا معلوم افراد نے فائرنگ کردی تھی۔

ان واقعات کے بعد علاقے میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جہاں سکول کالج اور کاروباری مراکز بند کر دیے گئے تھے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں