پاکستان کے فوجی کنٹرولڈ پارلیمانی نظام میں بلوچ حقوق حاصل نہیں کیے جاسکتے – میر جاوید مینگل

0
30

بلوچ قوم پرست رہنماء میر جاوید مینگل نے کہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ نام نہاد کنٹرولڈ جمہوری نظام اور فریم ورک میں بلوچ حقوق حاصل کرنے کے تمام ناکام کوششیں بے سود ثابت ہوگئے، ہمارا شروع دن سے موقف تھا اور اب بھی ہم اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ پاکستان کی اس آرمی کنٹرولڈ جمہوری و پارلیمانی نظام میں بلوچ حقوق حاصل نہیں کیے جاسکتے، حقوق حاصل کرنا درکنار یہاں اس نظام میں اپنی شناخت، تشخص اور وسائل کی تحفظ تک نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ پاکستان کی اس نام نہاد، فوجی جمہوریت میں بلوچستان کی سیاسی، معاشی اور قومی حقوق کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا اور بلوچستان کے لوگوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ بلوچستان پر بزور طاقت قبضہ کیا گیا اور بلوچ سرزمین ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔

جاوید مینگل نے کہا ہے کہ پاکستان کی تمام وفاقی پارٹیاں پنجاب کے مفادات کے لئے ایک پیج پر متحد ہے اور وہ بلوچستان میں نسل کشی، استحصال اور وسائل کی لوٹ مار میں فوج کی معاونت کرکے پنجاب کو ہر ممکن خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی اقتدار تک رسائی آسان ہو، اس لئے وہ بلوچستان میں فوجی کاروائیوں پر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور فوج کی ظلم و بربریت کو جسٹیفائی (Justify) بھی کرتے ہیں۔

“اس کے علاوہ پاکستان اور پنجاب کو معاشی طور چلانے کے لئے بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخواہ کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے اور بلوچستان کے معدنی ذخائر پر نظریں جما کر بیٹھے ہیں اور بلوچ قوم کو اعتماد میں لیے بغیر مختلف ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرکے بلوچ وسائل کو بیچ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب 1947 میں ہندوستان کو نام نہاد دو قومی نظریہ کے نام پر تقسیم کرکے انگریزوں نے پاکستان بنایا اور کئی عرصے تک انگریز فوجی جنرل پاکستان کو چلاتے رہے اور جب وہ یہاں سے چلے گئے اُن کی خدمت پر جو فوجی مامور تھے پاکستان کی بھاگ دوڑ ان کے حوالے کردی اور آج تک وہ ہی چلا رہے ہیں۔

جبکہ بلوچستان پر 1948 میں فوجی کارروائی کے ذریعے جبری قبضہ کیا گیا اور فوج یہ سمجھتی ہے کہ بلوچستان پر انہوں نے قبضہ کیا ہے تو یہاں کے سیاست، وسائل سمیت ہر چیز پر ان کا حق ہے۔

میر جاوید مینگل نے کہا ہے 70 کے دہائی میں بلوچ لیڈر شپ نے جمہوری و پارلیمانی سیاست کی لیکن اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اور اس کے بعد وہ بھی پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرگئے وہ سمجھتے تھے کہ اس فریم ورک میں سیاست کرنا صرف وقت کا ضیاع ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے ایک کٹھ پتلی نگران وزیراعظم تعینات کرنا پاکستان میں جمہوری، پارلیمانی اور سیاسی عمل کا پول کھولنے کے لئے کافی ہے، ایک انتہائی بلوچ دشمن، معتصب شخص کو وزیراعظم تعینات کرنا اور پاکستان کے سیاستدانوں اور صحافیوں کی جانب سے اس کٹھ پتلی کی تعیناتی کو بلوچستان کے محرومیوں کا ازالہ قرار دے کر خوشی منانا مضحکہ خیز ہے، موجودہ نگران وزیراعظم بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، Kill and Dump ، Mass graves جیسے انسانیت کے خلاف جرائم کو درست سمجھتے ہوئے انسانی حقوق کی اِن سنگین پامالیوں کی وکالت کرتے رہے ہیں، ایسے شخص کو نگران وزیراعظم بنانا حیرانگی کی بات نہیں یہ آرمی کی بلوچستان کے متعلق پالیسیوں کا تسلسل ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں