پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے باسی پاکستان کی جانب سے کئے جانے والے مظالم, مہنگائی اور لاقانویت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اس احتجاج کا آغاز گزشتہ سال ہوا تھا۔ گزشتہ سال بھی بھمبھر سے نیلم تک لوگوں نے کافی احتجاج کیا تھا، اب کی بار ان کے احتجاج میں تیزی آرہی ہے۔
گزشتہ تین مہینوں سے لوگ مسلسل احتجاج میں ہیں۔
پہلے مرحلے میں بجلی کے بلات جمع کرانا بند کیا گیا, دوسرے مرحلے میں دو ماہ کے بجلی کے سرکاری بلات جلائے گئے۔ تیسرے مرحلے میں ٹول ٹیکس کی آدائیگی بند کی گئی۔ چوتھے مرحلے میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں شٹر ڈاون اور پہیہ جام کرکے جلسے جلوس نکالے گئے۔
اس کے علاوہ مہینوں سے ہجیرہ پلندری راولاکوٹ اور دیگر شہروں اور قصبوں میں دھرنے جاری ہیں۔
یہاں کے لوگ یہ مانگ کر رپے ہیں کہ منگلہ ڈیم, نیلم جہلم , ہولاڈ اور دیگر بجلی پیدا کرنے والے منصوبے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی ملکیت ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان کو مفت بجلی فراہم کی جائی۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ہم سے سستی بجلی خرید کے ان ہی کو مہنگی فروخت کررہا ہے۔ آٹے پر سبسیڈی کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں بیس کیمپ کے نام پر استمال کیا گیا۔ لوگوں کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام والے کشمیر کے لوگوں کو وہی سہولیات فراہم کی جائیں جو ہندوستان اپنے زیر انتظام والے کشمیر کے لوگوں کو فراہم کر رہا ہے۔
یہاں کے لوگ پاکستان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جموں کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں اس لئے پاکستان یہاں سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسیز لینا بند کرے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی طرح پاکستان بھی کشمیریوں کو سستی اور معیاری اشیا فراہم کرے۔
یہاں کے لوگ بار بار ہندوستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے لوگوں کو دی گئی سہولیات کا زکر کر رہے ہیں۔
مظفر آباد پونچھ اور میرپور کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان نے کرگل لداخ تک ٹرین ہہنچائی اور ہائی ویز بنائے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام علاقے میں کسی قسم کا انفراسٹریکچر موجود نہیں۔
ماضی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگ خود کو آزاد اور ہندوستان کے زیر انتظام والے کشمیر کو غلام سمجھتے تھے۔
سوشل میڈیا کی آمد کے بعد حالات بدل رہے ہیں۔
اب یہاں کے باشندوں کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان قابض ہے اور ان کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔
احتجاج میں روز تیزی آرہی ہے۔۔
کشمیر میں پاکستان سے نفرت بڑھ رہی ہے۔
نام نہاد آزاد کشمیر کے لوگ پاکستان سے یہ مانگ کر رہے ہیں کہ اگر پاکستان ان کو سستی اور معیاری سہولیات فراہم نہیں کرسکتا تو ایل او سی کھولی جائے تاکہ میر پور کے لوگ پار جموں اور , پونچھ ڈویژن سے جبکہ ظفر آباد والے ایل او سی کی دوسری جانب سے سستی اشیا خرید سکیں۔
موجودہ احتجاج کی لہر کے بعد پاکستان کی پوزیشن بہت کمزور ہوچکی ہے۔
پاکستان کشمیریوں کے بدلتے ہوئے رویے سے پرہشان نظر آرہا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جاری احتجاج میں مزید تیزی آئے گی۔