پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جاری احتجاجی تحریک کو پولیس اور انتظامیہ کنٹرول کرنے میں ناکام ہو رہی ہے جس کے بعد حکومت نے پاکستان کے صوبہ پنجاب سے پنجاب کانسٹیبلری PC خیبر پختونخوا سے فرنٹیئر کانسٹیبلری FC اور رینجرز کو بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مظفرآباد میں واقع مرکزی پولیس آفس سے اضلاع کے پولیس سربراہان کو ایک مکتوب لکھا گیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ احتجاجی تحریک سے نمٹنے کیلئے اپنی مطلوبہ ڈیمانڈ فراہم کریں کہ ان کو پنجاب کانسٹیبلری ،فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز کی کتنی نفری کی ضرورت ہے اور کون کون سے آلات وائرلیس وغیرہ کی ضرورت اس سے بھی آگاہ کیا جائے۔
گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مہنگی بجلی ،لوڈ شیڈنگ سمیت دیگر مطالبات کو لیکر جاری احتجاجی تحریک سے پولیس اور انتظامیہ نمٹنے میں مصروف ہے تاہم احتجاج کی شدت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔
ضلع نیلم میں بھی پیر کے روز مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے جس کہ وادی میں نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے بازار بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہے جس کی وجہ سے سکولوں اور تعلیمی اداروں میں بھی حاضری انتہائی کم ہے۔ اس سے قبل پوری ریاست میں مکمل ہڑتال اور احتجاج ہو چکا ہے، مظفرآباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان 30 ستمبر کو شدید تصادم بھی ہو جس میں کئی پولیس اہلکار اور مظاہرین ذخمی ہوئے۔
پہلی بار 1951 میں پنجاب کنسٹیبلری پونچھ لاکے ایک تحریک کو کچلنے کی کوشش گئی تھی۔ 1951 میں اسطرح کی کاروائی ممکن تھی مگر آج 2023 ہے۔ اگر حکومت نے ایسی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ دوسری جانب ریاستی عوام بھی حتمی لڑائی لڑنے کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ آنے والے دن خطرناک نظر آرہے ہیں۔