ہم نے گوادر پر سہانے خواب دیکھے، بہت ہی خوب صورت خواب جن کے تعبیر سے پرتعیش زندگی اسیر ہوتی ہے۔ خواب ھم نے کیا دیکھے ہم تو ٹہرے مچھیرے بلکہ ہمیں پرتعیش مستقبل کے خواب دکھائے گئے۔ گوادر کو دبئی اور سنگاپور سے تشبیہ دے کر کہا گیا کہ گوادر ترقی کے زینوں پہ چڑھ رہی ہے جو خواب تم مچھیروں کی آنکھوں میں ڈالے گئے ہیں وہ تمہاری زندگیوں ہی میں تعبیر ہوں گے۔
اب جو گوادر کے گرد باڈ لگایا جارہا پہلے ہی درجنوں چیک پوسٹ اور چوکیاں بنائی گئیں جہاں ہماری عزت کے ساتھ روز کھلواڈ کر کے شناختی کارڈ دکھانے کے بہانے یہ تاثر دیا گیا کہ تمہارے دیکھے گئے خواب صرف تمہاری آنکھوں کی خوب صورتیاں رہ جائیں گی۔
گوادر کی سیکیورٹی کے نام پر گوادر باسیوں کو گھنٹوں کھڑے کر الٹے سیدھے سوالات کے بعد آنے جانے کی سہولت مل جاتی تھی یہ بھی غنیمت ہی تھا ورنہ مچھیروں کی کیا اوقات کہ ترقی کے زینوں پہ چڑھے مستقبل کے ایک شہر میں داخل ہوسکیں جو ان کے لیے ہر حوالے سے اجنبی بنتا جائے گا۔
کہا جارہا ہے کہ گوادر کے گرد باڈ بلکہ گوادر کو باڈ میں بند رکھنے کا سبب سیکورٹی ہے مگر پوچھا جاسکتا ہے کہ کس کی سیکیورٹی۔
گوادر کے باسی تو سالوں سے بغیر پوچھے اور شناخت گوادر میں داخل ہوتے رہے ہیں کہیں کسی نے کبھی ان سے اندر جانے اور باہر آنے کا سبب نہیں پوچھا، نا کسی نے کبھی تلوار اٹھا کر راستہ روکا، بلا اپنے گھر باسیوں کو گھر جانے میں سیکیورٹی کی آفت کیا آن پڑی ہے۔
وہ جو گوادر پر سہانے خواب تھے ان کی تعبیر ہی باڈ رہ گئی وہ باڈ جو اس شہر کے بدقسمت باسیوں کو اپنے گھر سے دور رکھنے کا سبب بنیں گے۔
گوادر کو ترقی کے نام پر ان کے باسیوں سے الگ رکھنے کا پلان دردناک ہے، ایسا دردناک کے سوچنا محال ہے۔ پرتگیزی لشکر سے جنگ لڑنے والے حمل اگر یہ سنے کہ ان کی بستی کے گرد لشکری آج باڈ لگا رہے تو ان کا کیا حال ہوگا۔
اس دلربا بستی کے سدا باسی مچھیروں کو ترقی نہیں چاہیے بس انہیں یہاں سے دور مت رکھیے۔ انہیں ان سے گوادر مت چھینے، انہیں باڈ میں بند رکھیے لیکن باڈ کی آن میں ان سے ان کا بستی مت چھینے۔
آپ بلے آقا اور ہم مچھیروں کو غلام کا درجہ دیجیے لیکن ہم سے ہماری بستی ترقی کے نام پر مت ہتھیا لیجے۔ یہ بستی ہماری زندگی ہے ہمارا جیون ہے ہمارے خواب ان سے جڑے ہیں یہ بستی ہماری سرزمین ہے بلا کوئی کسی سے ان کا سرزمین بھی ترقی کے نام پر چھین سکتا ہے۔
حمل جیئند نے گوادر کے لیے جنگ لڑا تھا پرتگیزی لشکر کے خلاف جان دے کر گوادر کی حفاظت کرنے والے حمل کے اولاد پھر مجبور ہوں گے کہ لشکریوں کے سامنے اپنی سرزمین کی حفاظت پر جان نچھاور کرسکیں۔