ہندوستانی سپریم کورٹ کا یہی فیصلہ بنتا تھا

0
142

احباب آج ہندوستانی سپریم کورٹ کے آرٹیکل 370 کے متعلق فیصلہ کے بعد گرم نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بحث بھی کر رہے ہیں کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے جنوری 2019میں گلگت بلتستان کے متعلق جیسا فیصلہ دیا تھا ہندوستانی سپریم کورٹ بھی جموں کشمیر کے متعلق ویسا ہی فیصلہ دیتی۔ ایسا سوچنے والے احباب کو اتنا سوچنا چاھئیے کہ ہندوستانی آئین کے مطابق ریاست جموں کشمیر اس کا حصہ ہے۔ اسی لئے ہندوستانی اسمبلی نے 1954 میں اپنے آئین کے اندر آرٹیکل 370 شامل کرکے جموں کشمیر کو دیگر ریاستوں سے منفرد سٹیٹس دیا تھا۔۔ آگے چل کے ,5 اگست 2019 کے روز ہندوستان کی موجودہ اسمبلی نے اہنے ملک کے مفاد کو مدنظر رکھ آرٹیکل 370 کو ختم کیا۔
اس کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا میں کیس چل جس سے ہمارے دوستوں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ سپریم کورٹ آف انڈیا 5اگست کے پارلمانی فیصلے کو انڈو کرے گی، یہ خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہندوستانی ریاست نے کبھی بھی جموں کشمیر کو متنازعہ نہیں سمجھا بلکہ 1948 میں ہندوستانی ریاست اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف گئی ہی اس لئے تھی کہ ریاست جموں کشمیر اسکا حصہ ہے جس کے کچھ علاقوں یعنی گلگت بلتستان اور ازاد جموں کشمیر پر پاکستان قبضہ کرچکا ہے اس کو روکا جائے۔ 13 اگست 1948 کے سیز فائر کے 11 ماہ 27 دن کے بعد ہندوستان اور پاکستان کی ملٹریز کے مابین پاکستان کے پرانے دارلحکومت کراچی میں ایک معاہدہ ہوا اور یہ معاہدہ کراچی ملٹری ایگریمنٹ کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کے گارنٹرز یو این کے آزاد ممبر ممالک بنے اور اس میں بھی پاکستان نے جموں کشمیر (گلگت بلتستان اور نام نہاد آزاد جموں کشمیر کے پاکستانی پنجاب اور سرحد سے ملنے والے بارڈرز کو عالمی بارڈرز مانے جبکہ ہندوستان نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

احباب کو آج جزباتی ہونے کے بجائے جموں کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کے افیشل موقف کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کی قانونی حثیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں تین بار آئین لکھا گیا اور ہر بار جموں کشمیر پاکستانی آئین سے باہر ایک متنازعہ علاقہ ہی مانا گیا۔

سیز فائر کے وقت یو این سی آئی پی کی ریزولوشنز میں بھی یو این کی جانب سے پاکستان کے لئےسخت اورہندوستان کے لئے نرم احکامات دئے گئے تھے۔
پاکستان کی عدالتیں جموں کشمیر کے متعلق فیصلے دیتے ہوئے اپنی آفیشل پوزیشن اور آئین کی پابند ہے ٹھیک اسی طرح ہندوستانی عدالت بھی اپنے آئین کی بونڈ ہے۔

کیا پاکستانی عدالتیں چاراکتوبر, 22 اکتوبر, یکم نومبر اور سولہ نومبر کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہرگز نہیں۔
1954میں آرٹیکل 370 کی شمولیت بھی لوک سبھا کی منشاسے ہوا تھا اور پانچ اگست 2019 کا فیصلہ بھی اسی اسمبلی کا تھا اور بھارتی سپریم کورٹ سے ویسا ہی فیصلہ آیا ہے جیسے فیصلے کی قانونی معملات سمجھنے والوں کو اندازہ تھا۔

کسی بھی ملک کی عدالتوں سے ہم اپنی خواہشات کے فیصلوں کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔

یاد رہے جموں کشمیر پر یندوستانی موقف واضع ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں