گندم تحریک میں شدت کے عوامل

0
356

پاکستانی زیر قبضہ گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی میں کمی اور فی کلو قیمتوں میں اضافے کی تحریک دن بہ دن شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ سکردو میں سینکڑوں افراد کے مظاہرے اور دھرنے اور گلگت شہر میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کے ساتھ مشتعل خواتین کا ہنزہ اور شہر گلگت میں مظاہرے سے امن و امان کے مسائل سنگین ہونے پر حکومت کافی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔تحریک میں شدت کی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان حکومت نے قیمتیں بڑھانے کے ساتھ ہر فرد کے لیے گندم کوٹہ اور معیار بڑھانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ نئی قیمتوں کے تعین پر وفا نہ ہو سکا جسکی وجہ سے اشتعال پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔

اس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ گلگت بلتستان حکومت کی گندم قیمت میں اضافے کے عوض میں جو معیار اور مقدار میں اضافے کا فیصلہ صادر کیا تھا اس پر کوئی منصوبہ بندی اور تیاری ہی نہیں تھی جسکی وجہ سے آٹے کی قیمتیں تو دگنی وصول کی گئیں مگر معیار اور مقدار میں بہتری نہ آ سکی۔ اس پر پبلک بلخصوص خواتین کا غم و غصہ بلاجواز نہیں تھا۔

حکومت نے اس بدنظمی سے عوام کو یہ پیغام دیا کہ انہوں نے معیار اور مقدار کا دعویٰ محض اضافی قیمتوں کے نفاز کے لیے کیا تھا محکمہ خوراک کی اس محکمانہ انتشار سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ محکمانہ سطح پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظامِ نہیں اور عرصہ دراز سے براجمان افسران شفاف اور منصفانہ طور پر محکمہ چلانے کی استعداد نہیں رکھتے اور خوراک کے معاملات پر حکومت کی گرفت حد درجہ کمزور پڑ گئی ہے۔ اسی وجہ سے نئے قیمتوں پر ملنے والا آٹے کا تھیلا چالیس کلو گرام تو تقسیم کر دیا مگر ڈیلروں کو معمول کے کوٹے کے مطابق کوٹہ نہ ملا جس سے دو ہفتوں سے باری کے منتظر نصف ابادی آ ٹے سے محروم رہ گئی بعض مقامات پر ڈیلروں نے دو گھرانوں میں ایک تھیلا بانٹ دیا جس پر کئی ایک نے تقسیم سے انکار کر دیا جس پر گاہکوں کا آپس میں تصادم ہوا تو محروم افراد نے سڑکوں کو بلاک کر کے شدید مظاہرہ کیا۔

ایک طرف مقدار میں غیر منصفانہ ردوبدل کا یہ تنازعہ تو دوسری طرف آ ٹے کا غیر معیاری ہونے کی شکایت برقرار رہیں بعض مقامات پر تو ایسا معیار کا آٹا تقسیم کرنے کی شکایات سوشل میڈیا میں سامنے آئی ہیں جو انسان تو کجا جانور بھی شاید ہضم نہ کر پائے وہی سیاہ رنگت اور بدبودار آ ٹا جو مفت میں شاید نہ کھا لے مگر حکومت بھاری قیمت لیکر کھلانے پر مجبور کر رہی ہے۔حکومت کی اس عہد شکنی اور بد انتظامی نے عوامی ایکشن کمیٹی کو سر چڑھ کر بولنے کا موقعہ فراہم کیا اور غیر موثر تحریک میں ایک دم جان آ گئی ہے اس پر عوام ایکشن کمیٹی کے رھنماوں کی باتوں کو سچا ماننے پر مجبور ہو گئے۔

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بعض مقامات پر عوام نے نئے ریٹس پر آٹا خریدنے سے انکار کر دیا اور ڈیلروں کو واپس کر دیا ہے ادھر غذر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق محکمہ خوراک کے عملے نے گندم تحریک پر احتجاج کرنے والے بزرگ شہری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور شہری نے وزیر خوراک اور دیگر افراد کے خلاف مقدمہ کے لیے تھانے میں درخواست دیدی ہے اس واقعے کی سچائی کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے مگر یہ عین حقیقت ہے تو اس بڑھکر گنڈا گردی محکمے کی اور ہو نہیں سکتی ہے اسے کہتے ہیں چوری بھی اور سینہ زوری بھی اگر ایسے افراد محکمے میں موجود ہیں تو حکومت کو مزید کسی بدخواہ کی ضرورت ہی نہیں بہر حال حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ تحقیقات کر کے ملوث عناصر کو کیے کی سزا دیدے ورنہ علاقہ بھر میں جاری اشتعال انگیز دھرنوں اور مظاہروں کے دوران ایسا رویہ عوام کو جارحانہ اقدام کا موجب بن سکتا تھا یہ عوام کا کمال ہے کہ انہوں زیادہ سخت ردعمل نہ دیکھایا اگر ایسا واقعہ گلگت یا سکردو میں رونما ہوتا تو حکومت کو سنگین پریشانیوں کا سامنا ہو سکتا تھا عین ممکن ہے اس کے پیچھے کوئی بڑی سازش ہو جو چاہتے ہوں کہ عوام اور حکومت میں بڑا تصادم ہو جائے بہر حال اسکی مکمل چھان بین کر لینا چاہیے۔

جہاں تک معیار اور مقدار کی زمہ داریاں نبھانے میں ناکامی کا تعلق ہے اس پر حکومت کو سنجیدگی دیکھانے کی ضرورت ہے ورنہ نئی قیمتوں کے حکومتی وعدوں کے مطابق گندم کوٹے میں اضافہ کیا گیا تو اس کا فایدہ عوام کی بجائے محکمے کے ملازمین حسب سابق اٹھانے میں کامیاب رہیں گے۔اس کے لیے حکومت کو ایک بار ڈائریکٹرز سطح پر تبادلے کر کے دیگر محکمے سے اچھی شہرت کے حامل افسران کو تعینات کر دینے کا تجربہ کر لینا چاہیے تاکہ محکمے میں موجود کرپشن کا نیٹ ورک توڈ کر خوراک کی مصنوعی قلت اور چوری کو روک دیا جاسکے۔ سیکرٹری خوراک کا شمار بہتر منتظم اور باصلاحیت افسروں میں ہو تا ہے اس لیے انہیں اس تمام محکمانہ بد انتظامی ہر سخت ایکشن لینا ہو گا ورنہ انکے بارے میں عوامی تاثر خراب ہو گا اور اگر وہ بھی ماضی کے افسران کی طرح روایتی اقدامات پر اکتفا کرینگے تو ماتحت افسران کے سیاہ کرتوتوں پر انکا دامن بھی داغدار اور حکومت کے لیے رسوائی کے باعث بن جائیں گے۔

گلگت بلتستان حکومت کی یہ پالیسی بھی ناقابل فہم ہے کہ بعض اضلاع میں کئی ماہ سے چالیس کلو آٹے کا تھیلا فراہم کر رہی ہے جبکہ گلگت سمیت بیشتر اضلاع میں 20 کلو آٹا فراہم کیا جارہا ہے۔ بعض اضلاع میں قدرے بہتر آٹا مل رہا ہے تو بہت سے مقامات میں حد درجہ ناقص اور مضر صحت آٹے کی تقسیم ہو رہی ہے ایسا غیر معیاری آٹا ملک میں کہیں نہیں دیا جارہا ہے مگر گلگت بلتستان میں یوکرین گندم کے نام پر اسے تقسیم کیا جارہا ہے۔ ماہرین صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ راولپنڈی سے لائی جانے والی گندم حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ڈھانپ کر نہیں لائی جارہی ہے جس سے گندم بارشوں اور مختلف سٹورز میں نمی کے باعث فنگس کی بیماری پیدا ہوتی ہے جس سے کینسر کی شکایات بڑھ سکتی ہیں اسی طرح محکمے کے افسران لوڈ ان لوڈ کے دوران گندم کے دانے بوری سے گرنے کے نام پر ہر بوری سے دس سے پندرہ کلو چوری کر لیتے ہیں اس کا بدلہ مل مالکان آٹے کے تھیلے میں اسی تناسب سے کمی کر کے اپنا نقصان کی تلافی کرتے ہیں اور اس کا تاوان بھی عوام کو ادا کرنا پڑ رہا ہے اس لیے حکومت کو گندم کی قیمت بڑھانے سے تھوڈا وقت نکال کر اس کھلی چوری اور غیر معیاری گندم کی فراہمی کے کے معاملے کو سدھارنا کا چیلنج بھی قبول کرنا ہو گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں