افغان طالبان کے نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے آج افغانستان کے علاقے لوگر میں منعقد عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیورنڈ لائن نے آدھا افغانستان ہم سے الگ کر دیا ہے۔ ہم نے زندگی بھر ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ سرحد کے طور پر کبھی قبول نہیں کیا اور نہ ہی ہم اسے قبول کریں گے۔ یہ ایک خیالی لکیر ہے جو انگریزوں نے افغانوں کے دل پر کھینچی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمارا مشرقی پڑوسی (پاکستان) نہایت ظالمانہ طریقے سے (افغان) مہاجرین کو نکال رہا ہے اور انہیں اپنے ملک واپس جانے کا کہہ رہا ہے۔ وہ (پاکستان) اس بات پر بھی شرمندہ نہیں ہیں کہ یہ سرزمین (پختونخوا) ان کی نہیں افغانوں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویزا پاسپورٹ نظام کو کبھی بھی قبول نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اسے ڈیورنڈ لائن پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے اس پار ان (پشتون) قبائل کو کوئی الگ نہیں کر سکتا۔ اس طرح کے مظالم 1971 (پاکستان سے بنگلہ دیش کی علیحدگی) جیسے واقعات کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ (پشتون) قبائل اپنی آزادی کے حصول کے لیے متحد ہوں گے۔
مزید کہا ہے کہ معلوم ہے یہاں افغانستان میں ہر مجاہد کو مارنے والی گولی کہاں سے آئی۔ ہم اپنے مجرموں کو جانتے ہیں۔ ایک دن ان کا احتساب ہو گا۔‘‘
واضح رہے کہ ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغان بہت حساس ہیں وہ اس کو بین الاقوامی سرحد کے بجائے ایک عارضی لکیر کہتے ہیں دونوں جانب کے زمین کے حوالے سے موقف رکھتے ہیں کہ وہ افغانوں کی سرزمین ہے۔
ڈیورنڈ لائن کو افغان اور بلوچ متنازعہ لکیر قرار دیتے ہیں جسے افغانستان بین الاقوامی بارڈر تسلیم نہیں کرتا۔ 1893 میں افغان امیر عبدالرحمان اور برطانوی ہند کے سیکرٹری سر مارٹیمر ڈیورنڈ نے سرحدی حد بندی کی اور اس سمجھوتے پر دستخط کیے اس کی میعاد سو سال تھی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل سرحد کا بڑا حصہ یعنی گیارہ سو کلومیٹر سے زائد سرحد بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔
ماضی میں بھی افغانستان میں جب افغانستان پر طالبان حکومت رہی تو پاکستانی حکام ملا عمر کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے اور ملا عمر سے اسے بین الاقوامی سرحد منظور کرنے پہ زور دیتے رہے ہیں تاہم اس وقت بھی طالبان حکومت نے اسے سرحد تسلیم نہیں کی تھی۔