تین منٹ دورانیے کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کسی کا گلا دبا رہا ہے جبکہ موقع پر ایک خاتون سمیت دیگر دو افراد بھی موجود ہیں۔
مقتولہ کے ایک اور بھائی نے پولیس کو درخواست دی ہے کہ ان کی بہن کا پوسٹ مارٹم کروایا جائے۔ اپنی درخواست میں ملزمان پر الزام لگایا ہے کہ وہ مقتولہ یعنی ملزمان باپ اور بھائی اپنی بہن اور بیٹی کو ریپ کرتے تھے جس کے بارے میں انھوں نے درخواست گزار کی اہلیہ یعنی اپنی بھابھی کو بتایا تھا۔
17 مارچ کو پیش آنے والے اس واقعے کا مقدمہ سب انسپکٹر احمد رضا کی مدعیت میں 24 مارچ کو درج کیا ہے۔
اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پولیس ایک مخبر نے اطلاع دی ہے کہ ملزم نے اپنی 22 سالہ بہن کا گلا دبا کر انھیں قتل کر کے لاش دفن کر دی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق اس وقوعہ کے بارے میں اہل علاقہ جانتے تھے لیکن کسی نے پولیس کو اطلاع نہیں دی اور نہ ہی کسی سے ذکر کیا۔
ایس ایس پی عبادت نثار کا کہنا تھا کہ پولیس سے یہ وقوعہ چھپانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان کے مطابق مبینہ طور پر خاتون کو قتل کرنے کے بعد مسجد میں جنازے کا اعلان یہ کہتے ہوئے کروایا گیا کہ خاتون کو ہیضہ ہوا اور وہ وفات پا گئی ہے۔ جس کے بعد رات ہی میں تمام رسومات ادا کر کے ان کی تدفین کر دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی ویڈیو بنانے والے اور واردات کرنے والے سب افراد نے اس واقعے کو چھیایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس ایف آئی آر میں شہادتیں چھپانے کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
ڈی پی او کا کہنا تھا کہ پولیس کی درخواست پر عدالت سے خصوصی اجازت لے کر مقتولہ کا پوسٹ مارٹم کروا لیا گیا ہے۔
مقتولہ کے دوسرے بھائی کی پولیس کو دی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ 17 اور 18مارچ کی درمیانی شب رات مدعی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کمرے میں سو رہا تھا کہ اسے اپنی بہن کی چیخیں سنائی دیں اور اب وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بھائی اور والد نے مقتولہ کے ہاتھ اور پاؤں چارپائی سے باندھے ہوئے تھے۔
درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ مدعی کے بھائی نے اپنی بہن کے منہ پر زبردستی تکیہ رکھ کر ان کی سانس کی آمدورفت روک دی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گئیں جس کے بعد ملزمان فرار ہو گئے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اسے ملزمان نے دھمکی دی کہ اگر اس نے اس واقعے کے متعلق کسی کو بتایا تو اس کے بچوں کو مار دیا جائے گا جس پر وہ خوفزدہ ہو گیا۔
درخواست گزار نے یہ بھی کہا ہے کہ واقعے کے اگلے دن انھوں نے دو افراد کو اس بارے میں بتایا اور ان سب نے جب ملزمان سے واقعے کے متعلق پوچھا تو دونوں نے اپنا عمل تسلیم کیا اور ان سے معافی مانگنے لگے۔
درخواست میں وجہ عناد کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مدعی کے بھائی اور والد اس کی ’بہن سے بدفعلی کرتے تھے‘ جس کے بارے میں مقتولہ نے ان کی اہلیہ کو بھی بتایا تھا
خاتون سے ’بدفعلی‘ کے الزامات کے حوالے سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں تاہم حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔
ڈی پی او کا کہنا تھا کہ دونوں زیرِ حراست ملزمان کا ریمانڈ حاصل کر کے ان سے تفتیش کی جائے گی جبکہ اس کے علاوہ بھی پولیس تفتیش کر رہی ہے کہ اس معاملے میں اور کون، کون شریک ہو سکتا ہے۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے معاملے کی رپورٹ طلب کی ہے۔
آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ واقعے کی ہر پہلو سے مکمل تحقیقات کی جائیں اور ڈی پی او مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیم تشکیل دیں۔
ڈی پی او کا کہنا ہے کہ دو ملزمان گرفتار ہیں جبکہ باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں اور مفرور ملزمان کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔