طارق جنجو عہ
جموں و کشمیر، جو اپنی قدرتی خوبصورتی، زرخیز زمینوں، برف پوش پہاڑوں، جھیلوں اور ثقافتی ورثے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے، آج ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں ترقی اور ماحولیاتی تحفظ میں توازن قائم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات، آب و ہوا کی تبدیلی، اور مقامی ضروریات نے اس خطے میں پائیدار ترقی کو وقت کی اہم ترین ضرورت بنا دیا ہے۔ پائیدار ترقی سے مراد ایسی ہمہ جہت حکمت عملی ہے جو اقتصادی ترقی، سماجی شمولیت، اور ماحولیاتی تحفظ کو یکجا کرتے ہوئے موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کو یقینی بنائے۔ جموں و کشمیر کا منفرد جغرافیہ—کشمیر کی سرسبز وادیوں سے لے کر جموں کے زرخیز میدانوں اور پیر پنجال کی برفانی چوٹیوں تک—ایسی ترقیاتی منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے جو جدید بھی ہو اور فطرت سے ہم آہنگ بھی۔ حالیہ برسوں میں حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں تاکہ صنعتی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی توسیع ماحولیات کی قیمت پر نہ ہو بلکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ہو۔ گرین جموں و کشمیر ڈرائیو جیسے منصوبوں کے تحت بڑے پیمانے پر شجر کاری کی مہمات چلائی جا رہی ہیں تاکہ جنگلاتی توازن کو بحال رکھا جا سکے۔ جنگلات اس خطے کی معیشت، ماحولیاتی نظام، اور آبی چکروں کے تحفظ میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی کٹائی، زمین کے کٹاو¿ اور موسمیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے کمیونٹی پر مبنی جنگلاتی انتظام کے ماڈلز اپنائے جا رہے ہیں۔ آبی وسائل، جن میں جہلم، چناب، اور توی جیسے دریا شامل ہیں، زرعی معیشت اور پن بجلی کی بنیاد ہیں۔ ان دریاو¿ں کے پائیدار استعمال کے لیے واٹر شیڈ مینجمنٹ، بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، اور جدید آبپاشی نظاموں جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں سولر پمپنگ اور مائیکرو اریگیشن ٹیکنالوجیز نے پانی کے استعمال کو مو¿ثر اور ماحول دوست بنایا ہے۔ زراعت، جو اس خطے کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اب جدید اور پائیدار طریقوں کی طرف گامزن ہے۔ حکومت کے “ہولیسٹک ایگریکلچر ڈویلپمنٹ پروگرام” کے تحت کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی، موسمیاتی سمارٹ طریقے، اور نامیاتی کاشتکاری کی تربیت دی جا رہی ہے۔ زعفران، سیب، اخروٹ اور دواو¿ں کے پودوں جیسی اعلیٰ قدر والی فصلوں کے فروغ سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور ماحولیاتی دباو¿ میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اسی طرح قابلِ تجدید توانائی کو زراعت اور دیہی زندگی میں ضم کیا جا رہا ہے تاکہ فوسل ایندھن پر انحصار کم کیا جا سکے۔
شمسی توانائی سے چلنے والی مشینیں، پانی کے پمپ، اور گرین ہاو¿سز اس سمت میں نمایاں کامیابیاں ہیں۔ سیاحت، جو جموں و کشمیر کی معیشت کا ایک اور مضبوط ستون ہے، پائیدار ترقی کی اہم ترین جہت بن چکی ہے۔ حکومت نے ماحولیاتی سیاحت، دیہی سیاحت، اور ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں تاکہ نہ صرف ماحول محفوظ رہے بلکہ مقامی آبادی کو براہِ راست فائدہ پہنچے۔ ہوم اسٹے اسکیموں اور گاو¿ں کی سطح پر سیاحتی منصوبوں نے مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ گلمرگ، پہلگام اور سونمرگ جیسے مقامات پر کچرے کی ری سائیکلنگ، پلاسٹک کے استعمال میں کمی، اور بائیو ڈیگریڈیبل مواد کے فروغ سے ماحول دوست سیاحت کو تقویت مل رہی ہے۔ حکومت نے بھدرواہ، دودھپتھری، اور بنگس ویلی جیسے نئے مقامات کو ترقی دے کر سیاحوں کے دباو¿ کو متوازن کیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں بھی جموں و کشمیر نے نمایاں پیش رفت کی ہے۔ خطے میں پن بجلی کے بڑے منصوبے جیسے کہ چناب اور جہلم بیسن میں تعمیر ہونے والے ڈیم نہ صرف مقامی ضروریات پوری کر رہے ہیں بلکہ توانائی کے برآمدی امکانات بھی پیدا کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی شمسی اور ہوا کی توانائی کے منصوبے، خصوصاً دور دراز دیہی علاقوں میں، توانائی کی خود کفالت کی سمت میں ایک مثبت قدم ہیں۔ اسکولوں، اسپتالوں اور سرکاری دفاتر کی چھتوں پر سولر پینل نصب کیے جا رہے ہیں جن سے نہ صرف اخراجات میں کمی ہو رہی ہے بلکہ کاربن فٹ پرنٹ میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ یہ اقدامات ہندوستان کے 2070 تک خالص صفر کاربن اخراج کے ہدف سے ہم آہنگ ہیں۔ شہری ترقی کے میدان میں بھی پائیداری پر زور دیا جا رہا ہے۔ سری نگر اور جموں کو “اسمارٹ سٹی” منصوبے کے تحت جدید، ماحول دوست، اور شہری دوست شہروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ویسٹ ٹو انرجی پلانٹس، سولر اسٹریٹ لائٹس، الیکٹرک پبلک ٹرانسپورٹ، اور ڈل و ولر جھیل کی بحالی جیسے منصوبے شہری زندگی کو پائیدار بنانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
ان اقدامات سے نہ صرف ماحولیاتی توازن بہتر ہو رہا ہے بلکہ عوامی سہولیات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پائیدار ترقی کے فروغ میں تعلیم اور عوامی شعور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسکولوں اور جامعات میں ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جا رہا ہے تاکہ نئی نسل فطرت کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھ سکے۔ نوجوانوں کو اسٹارٹ اپس، ماحولیاتی سیاحت، اور قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کے ذریعے خود کفیل اور ماحولیاتی طور پر ذمہ دار شہری بننے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ آخرکار، پائیدار ترقی صرف ایک حکومتی پالیسی نہیں بلکہ عوامی عزم اور اجتماعی ذمہ داری کا تقاضا ہے۔ جموں و کشمیر کی قدرتی دولت، انسانی وسائل، اور ثقافتی ہم آہنگی اگر ایک جامع پالیسی فریم ورک کے تحت استعمال کی جائے تو یہ خطہ نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ ترقی کی اصل روح اسی میں ہے کہ سڑکیں، صنعتیں، اور شہروں کی چمک دمک جنگلات، دریاو¿ں، اور حیاتیاتی تنوع کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھے۔ اگر موجودہ رفتار، اختراع، اور عزم برقرار رہے تو یقیناً جموں و کشمیر ایک ایسے پائیدار ماڈل کے طور پر ابھرے گا جہاں خوشحالی اور قدرتی حسن ایک ساتھ پروان چڑھیں گے۔














