مٹتی ہوئی تاریخ ۔ شمیم خان

0
441

ہر معاشرہ اپنی مخصوص روایات، تہذیب و تمدن اور ثقافت رکھتا ہے اور کسی بھی خطے، قوم ملک یا قوم کی تہذیب و ثقافت نہ صرف اسکی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے بلکہ یہ اسکے تاریخی طرز تعمیر اور معاشرے کی بودوباش کی بھی عکاس ہوتی ہے یقینا” کوئی معاشرہ اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخی ورثے کے بغیر اپنی تاریخ سے منسلک نہیں رہ سکتا۔

منقسم جموں کشمیر بھی دنیا کے ان خوش نصیب خطوں میں شمار ہوتا ہے جہاں قدیم ترین تہذیبوں کا ورثہ موجود ہے اور اسکے سارے حصوں میں تاریخ کے مختلف ادوار کی تہذیب و ثقافت کی نشانیاں بکھری پڑی ہیں۔

اس ریاست کا وہ حصہ جو انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے بعد الگ ہو کر آزاد کشمیر کہلایا آج کی ریاستی حصوں میں یہ سب سے چھوٹا حصہ ہے جو محض پانچ ہزار مربع میل پر مشتمل ہے بھمبر سے نیلم تک پھیلا ہوا یہ علاقہ ریاست جموں کشمیر کا سرحدی خطہ ہے جسکی سرحدیں آج کے پاکستان سے منسلک ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کی نسل اور آنے والی نسل اپنی تاریخ، تمدن اور تہذیب و ثقافت سے کس حد تک آشنا ہے۔

لیکن خطہ نام نہاد آزاد کشمیر میں کوئی بھی مذہبی مقام جو یہاں بسنے والے ماضی کے لوگوں کے تھے محفوظ نہیں رہے مذہبی مقامات تو کجا فوجی طرز کے تعمیر شدہ قلعے بھی کسی کی توجہ کا مرکز نہ بن سکے
ساری دنیا میں کوشش کی جاتی ہیکہ تاریخی مقامات کے گرد کوئی ایسی تعمیر نہ کی جائے جس سے اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو مگر ہمارے ہاں کسی
کو اسکی پروا نہیں کہ یہ ہماری پہچان ہے اور قدیم تہذیب و روایات کا حصہ ہے
اگر آپ ملکوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو تو کسی بھی قوم کے آثار قدیمہ اسکا قیمتی سرمایہ اور قومی ورثہ ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنے اندر اس قوم کی تہذیب و ثقافت کی پوری تاریخ سموئے ہوتے ہیں بلکہ اپنے اندر بڑی کشش بھی رکھتی ہیں بالخصوص سیاحوں کے لیے ماضی کے کھنڈرات نہایت دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں محقیقین آثار قدیمہ کھنڈرات سے قدیم تہذیبوں کے راز تلاش کر کے تاریخ مرتب کرتے ہیں
زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ اپنے ماضی اور آباو اجداد کی روایات، اقدار، تمدن اور معاشرت کو نہ صرف زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ انکی حفاظت اور نسل نو کو ان سے روشناس کرانے اور آئندہ نسلوں تک انکی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں،لیکن یہ ذکر تو زندہ قوموں کا ہے ہمارا شمار شاہد ان میں نہیں ہوتا یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد فیصلہ پڑھنے والوں پر ہیکہ وہ فیصلہ کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
کیا ہماری آنے والی نسلیں یہ جان پائیں گی کہ کنشک دی گریٹ کے قدم کبھی اس سرزمین پر آئے ہوں عظیم بڈشا شاردہ مندر تشریف لایا ہوگا اور یہ شاردہ مندر تھا کہاں،کیونکہ چندبرس اور پھر شاہد اسکا نشان بھی باقی نہ ہو
ہماری نسل نو شاہد ہی جان پائے کہ چک خاندان کا تعمیر کردہ لال قلعہ کس شان سے مظفرآباد شہر میں کھڑا تھا کیونکہ اسکی تاریخ بھی مٹنے کے قریب ہے

نسل نو شاہد ہی جان پائے کہ یہ خطہ مسلم، ہندو، سکھ اور بدھ تہذیب کا مرکز تھا جہاں ہزاروں سال سے زندگی کا وجود موجود رہا یہ تاریخی عمارات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ خطہ ہزاروں برسوں سے آباد ہے یہاں مختلف تہذیبیں ابھریں اور مٹ گئیں کیونکہ عروج و زوال زندگی کے ساتھ رواں دواں ہے اب بھی وقت ہے بچی کچھی نشانیوں کو محفوظ بنایا جائے اسکی کوشش کی جائے تاکہ یہ ورثہ اگے منتقل ہو سکتا ہے اس خطے میں بھی کوئی تحقیق کرے تہذیبوں کے راز جاننے کی کوشش کرے اور اجکی۔بچی ہوئی یہ نشانیاں اسکے لیے ایک راستہ ثابت ہوں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں