تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے کہا ہے کہ پختون دوست جماعتوں نے زبردستی مجاہدین کا ہاتھ اصل دشمن سے نکال کر اپنے گریبان میں پھنسا دیا،اور اپنی خوشی سے مجاہدین کے ساتھ نظریاتی بنیاد پر دشمنی شروع کر کے خود کو قتل کروا دیا۔انھوں نے کہا پاکستانی فوج کا بلوچستان میں قتلِ عام کے ہم مخالف ہیں،اس کو ہم سراسر ظلم اور جبر سے تعبیر کرتے ہیں،اور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی اسلامی جہادی تنظیم اس گھٹیا،اور غیر اسلامی فعل کا حامل نہیں ہوسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب امریکہ نے افغانستان پر یلغار کیا،تو اس کے نتیجے میں افغان طالبان وغیرہ ریاست پاکستان کے زیرِ نگرانی فاٹا میں داخل ہو گئے،ریاست پا کستان نے اپنی سرحد ان کے لیے کھول دی اور قبائلی لوگوں نے ان کی ہر قسم کی مدد کی لیکن جب پاکستان نے قبائلیوں کی ثقافت اور آزادی کو ختم کرنے کی کوشش کی تو اس کے ردعمل میں قبائل نے کرایے کے سفاک قاتلوں (پاکستان) کے خلاف جہاد شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔انھوں نے کہا موجودہ جنگ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے ہی نہیں اس جنگ کے سارے ’سٹیک ہولڈرز‘کو یہود نے ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ طالبان توسیع پسند خیالات نہیں رکھتے۔ ان کا اس بارے میں کہنا تھا پاکستان اور افغانستان کے طالبان ہمسایہ ممالک کو چھیڑے بغیر اپنے علاقے اور سرزمین پر اسلامی اور قبائلی روایات کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے آزادی کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کوئی تضاد نہیں، صرف میدان جنگ کا فرق ہے ایک کا میدان جنگ افغانستان ہے اور دوسرے کا پاکستان۔انھوں نے پشاور آرمی پبلک اسکول حملے کی تردید کی اور کہا کہ معصوم بچوں کی شہادت کا ہم نے نہ کبھی اقرار کیا ہے،نہ کرتے ہیں اور نہ ہی آئندہ کے لیے کریں گے،اس المناک سانحے کی تحقیق کے متعلق تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ امیر مفتی ابو منصور عاصم نے پاکستان سے ایک آزاد وفد کا مطالبہ کیا ہے،تاکہ غیر جانبدارانہ انداز سے اس واقعے کی جانچ پڑتال کی جائے کہ ان معصوم بچوں کا قاتل کون ہے؟مگر تا حال پاکستا نی حکام کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
انھوں نے کہا افغان طالبان کا موقف بالکل واضح ہے کہ ہم سب سے پہلے افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا یقینی بناتے ہیں،پھر افغانستان کی سر زمین پر امارتِ اسلامی کا قیام چاہتے ہیں،یعنی ایک ایسا اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جس نظام میں ہر فرد، ہر گروہ، ہر جنس کے لیے مناسب جگہ ہوگی،جس میں ان تمام کے حقوق کا لحاظ ہو گا،اس نظام میں کسی ایک گروہ یا فرد کی نہیں بلکہ اسلام کی بالادستی ہوگی،پوری دنیا کے ممالک اور فرق کے ساتھ شریعت کی روشنی میں خارجہ اور داخلہ پالیسی کو ترتیب دی جائے گی،وغیرہ وغیرہ۔انھوں نے پاکستان میں دینی فضا کو پاکستان کے مذہبی جماعتوں کا دین قرار دیتے ہوئے ان کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔