بلوچ لاپتہ افراد کے دن اور بلوچ طالبعلم رہنماء زاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کے 14 سال مکمل ہونے پر ذاکر مجید لواحقین و دیگر کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے ایک علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد کیا گیا-
ایک روزہ ٹوکن بھوک ہڑتالی کیمپ میں لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت سیاسی سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی-
کراچی احتجاج پر بیٹھے لواحقین کا کہنا تھا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی داستان طویل ہے اور آئے روز مزید شہریوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے ہمارے احتجاج کا مقصد اپنے آواز کو مقتدر حلقوں کا تک پہنچانا ہے تاکہ ہم انھیں بتا سکے کہ جس طرح غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک اپناکر ہمارے پیاروں کو جبری لاپتہ کردیا گیا ہے جس کے خلاف ہم مسلسل آواز اُٹھاتے رہیں گے-
کراچی احتجاج میں 2009 کو خضدار سے جبری طور پر لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی و وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ و مہلب دین بلوچ، 2016 کو پاکستان فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ بی ایس او آزاد کے رہنماء شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیماء بلوچ، 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کے بعد پاکستان منتقل کئے جانے والے راشد حسین بلوچ کی والدہ اور 2021 میں کراچی سے سندھ پولیس اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی-
اس دؤران کراچی کے سیاسی، سماجی، طلباء تنظیموں کے ارکان بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ارکان سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگ اس بھوک ہڑتالی کیمپ اور ریلی میں شریک ہوتے ہوئے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-
کیمپ کے شرکاء نے اس موقع پر بلوچستان میں ہونے والے جبری گمشدگیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دو دہائیوں سے جاری ہے اور اب سیکورٹی فورسز کی طرف سے بلوچ عورتوں اور بچوں کو بھی نشانہ بنانا ایک معمول بن چکا ہے، حکومت اور ادارے قانون کا احترام کرکے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کریں اور قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا آج کے دن کا مقصد بلوچ اسیر رہنماء ذاکر مجید اور دیگر لاپتہ افراد کو یاد کرنا ہے جنہیں سالوں سے ازیت خانوں میں قید کر رکھا گیا ہے ہم ذاکر مجید کے والدہ سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین کی طویل انتظار کے درد کو محسوس کرسکتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کے بلوچ سیاسی اسیران کو بازیاب کرکے جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو ختم کردیا جائے-
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیماء بلوچ کا کہنا تھا کہ بہنوں کے لئے بھائی جان سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور اگر بہن بڑی ہو تو بھائی پہللا اولاد ہوتا ہے جو زندگی سے بھی پیارا ہوتا ہے شبیر کی اغوا نما گرفتاری 2016 کو ہوئی اور آج تک ہزار بری خبروں کے باوجود میں جانتی ہوں کہ وہ لوٹے گا اور زندہ واپس لوٹے گا۔
انہوں نے کہا میرے بچے بلکل سمی اور مہلب کی طرح مسنگ پرسنز کے کیمپوں، احتجاجی ریلیوں میں بڑے ہو رہے ہیں۔ 2016 کو جب شبیر کو اٹھایا گیا تو مجھے پریس کانفرنس، احتجاج کرتے ہوئے بھی ڈر لگا لیکن آج مجھ سمیت میرے بچے اور باقی فیملیز اُن حلقوں کے آنکھوں میں بے خوف دیکھ سکتے ہیں جو ہمارے مجرم ہیں۔
لاپتہ عبدالحمید زہری کے بیٹی سعیدہ حمید نے کہا انکے والد گھر کے واحد کفیل ہیں گھر میں تمام بہن بھائی چھوٹے ہیں اور اکثر والد کی واپسی کا پوچھتے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ ہم بچوں کے مستقبل کو مزید برا باد نا کریں میرے والد کی جبری گمشدگی میں سندھ حکومت کے زیلی ادارہ پولیس شامل تھا سندھ حکومت اور وزیر اعلی سندھ میرے والد عبدالحمید کی بازیابی کو فوری یقینی بنائیں-
کراچی احتجاج میں شریک متحدہ عرب امارات اور بعد ازاں پاکستان میں گذشتہ پانچ سالوں سے لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین کے والدہ کا کہنا تھا انکے بیٹے کو پاکستان میں سکون سے رہنے نہیں دیا گیا جب وہ جان بچاکر کسی دوسرے ملک منتقل ہوگئے تو وہاں بھی انہیں نشانہ بنایا گیا اگر میرا بیٹا مجرم ہے تو عدالتوں میں پیش کریں اور جرم ثابت کریں وگرنہ ہمیں مزید ازیت سے نجات دیں-
راشد حسین کے والدہ کا کہنا تھا ملک کا وزیر داخلہ بتاچکا ہے کہ راشد کو پاکستان منتقل کردیا گیا ہے اگر میرے بیٹے کو پاکستان لایا گیا تو اب وہ کہاں کس قید میں ہیں مطالبہ ہے کہ بیٹے کو منظرعام پر لایا جائے-
دریں اثناء کراچی کی طرح آج جبری گمشدگیوں کے دن کوئٹہ میں وائس فارچ مسنگ پرسز اور زاکر مجید بلوچ کے اہلخانہ کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار بھی منعقد کیا گیا ہے-
بلوچستان میں جاری طویل جبری گمشدگیوں کے سلسلے کے خلاف 2016 میں بی ایس او آزاد نے ہرسال 8 جون کو جبری گمشدگیوں کے دن کے مناسبت سے منانے کا اعلان کیا تھا، اس دن بلوچستان بھر میں جبری گمشدہ افراد کے خاندان اور انسانی حقوق کے ادارے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور برسراقتدار جماعتوں اور پاکستان فوج سے اپنے پیاروں کے بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
آج کے دن کے حوالے سے بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسیٹس کی جانب سے ٹوئٹر سمیت دیگر سوشل سائٹس پر جبری گمشدگیوں کے خلاف کیمپئن چلاتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں