پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حال ہی میں جلدبازی میں منظور ہونے والے کچھ قوانین کی سخت مخالفت کی ہے، جن میں سے کسی بھی قانون پر پارلیمانی سطح سنجیدہ سوچ بچار نہیں ہوا اور عوامی حلقوں میں کوئی خاطر خواہ بحث ہوئی۔
چیئرپرسن حنا جیلانی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں، ترمیم شدہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 جو اپنے دائرہ کار کے لحاط سے ایک ظالمانہ قانون ہے، کے مطابق، اگر انٹیلیجنس ایجنسیوں کو شبہ ہو کہ اس قانون کے تحت کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اُِنہیں بغیر وارنٹ کے کسی بھی مقام میں داخل ہو کر کسی شخص یا مقام کی تلاشی لینے کے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔ اس کا سب سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے عوام کی خلوت کا حق متاثر ہو گا جو اُنہیں آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت حاصل ہے۔ مزید برآں، بعض تعریفوں کو وسیع کرکے، یہ قانون ایسے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے جن کا جُرم سرزد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ قانون کے تحت، جُرم کے لیے اُکسانے، سازش کرنے، کوشش کرنے، مدد کرنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے‘ کو جُرم قرار دیتے ہوئے، ترامیم نے مستقبل میں اختلاف رائے کرنے والوں اور سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کی راہ اور زيادہ ہموار کر دی ہے۔
اِس سے قبل، پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 جو جولائی میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے انتہائی جلد بازی میں منظور ہوا، نے مسلح افواج کی آن لائن بدنامی سمیت ہر قسم کی تضحیک کو جرم قرار دیا ہے۔ چنانچہ، یہ قانون آرٹیکل 19 کے تحت ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کے اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 17 کے تحت عوامی زندگی میں حصہ لینے کے حق کے منافی ہے۔ مزید برآں، یہ بِل ‘قومی ترقی اور قومی یا اسٹریٹجک مفادات کے فروغ’ میں مسلح افواج کی شمولیت کو جائز قرار دیتا ہے۔ ایچ آر سی پی کو افسوس ہے کہ اُن شعبوں میں فوجی مداخلت کے لیے قانونی منظوری حاصل کرنے کی تگ و دو کی جا رہی ہے جن پر فوج کا کوئی اخلاقی یا سیاسی استحقاق نہیں۔
جولائی کے اوائل میں منظور ہونے والا مجلسِ شوریٰ (پارلیمان) کی توہین بل 2023 نہ صرف آرٹیکل 19 کے تحت حاصل آزادی اظہار کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے، بلکہ اس کی وجہ سے منتخب نمائندوں کی جواہدہی بھی مشکل ہو گی، اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کا شراکتی حکمرانی کے حق کے منافی بھی ہےکا حق بھی متاثر ہو گا۔ مزید برآں، توہین کا جائزہ لینے والی مجوزہ کمیٹی کو سزا دینے کی اجازت دینا ریاست کے تین اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی ہے کیونکہ مقننہ عدالتی اختیارات استعمال کرنے کی مجاذ نہیں ہے اور نہ ہی قانون سازوں کو اپنے ہی معاملے میں منصف ہونا چاہئے۔ اگرچہ ایچ آر سی پی پارلیمانی بالادستی کے تصور کے حق میں ہے، تاہم قانون کے مندرجات جو کہ مبہم اور حد سے زیادہ وسیع ہیں اور جس طریقے سے اسے منظور کیا گیا، یہ دونوں امُور ہی تشویش کا باعث ہیں۔
آخر میں، پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بِل اور ای سیفٹی بِل، جنہیں وفاقی کابینہ نے جولائی میں بغیر کسی غور و خوض یا بحث کے منظور کیا تھا، انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔ ہم ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کے تحفظات کی حمایت کرتے ہیں جنہوں نے نشاندہی کی ہے کہ یہ بِل ڈیٹا پرائیویسی کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے بجائے انہیں محدود کریں گے۔
حکومت کو یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی قانونی حیثیت اور طاقت کا سرچشمہ معیاری نظم و نسق برقرار رکھنے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے احترام، تحفظ اور تکمیل کی استعداد ہے۔