طارق جنجو عہ
آپریشن سندھور جموں و کشمیر کے سرحدی اضلاع میں بھارتی فوج کی جانب سے انجام دیا گیا ایک فیصلہ کن، منظم اور تزویراتی لحاظ سے غیر معمولی فوجی اقدام تھا جس نے نہ صرف بھارت کی علاقائی سالمیت کے دفاع کو یقینی بنایا بلکہ سرحد پار دہشت گردی، دراندازی اور امن مخالف سرگرمیوں کے خلاف اس کے غیر متزلزل عزم کو بھی نمایاں کیا۔ اس آپریشن نے واضح کر دیا کہ بھارت ایک امن پسند جمہوریت ہونے کے باوجود اپنی خودمختاری اور شہریوں کی سلامتی کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ “سندھور” کے نام سے موسوم یہ آپریشن پاکیزگی، قربانی اور وطن کے تقدس کی علامت ہے، جو بھارتی مسلح افواج کے عزم، ہمت اور انسان دوستی کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔ لائن آف کنٹرول کے قریب مسلسل دراندازی کی کوششوں، دہشت گردی کی کارروائیوں اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے پس منظر میں جب انٹیلی جنس رپورٹس نے بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کی نشاندہی کی جو بھارتی علاقوں کو غیر مستحکم کرنے کے عزائم رکھتے تھے، تو فوج نے فوری مگر منظم ردعمل کے طور پر آپریشن سندھور کا آغاز کیا۔ پونچھ بریگیڈ کے تحت ہونے والا یہ آپریشن جدید ترین ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ امیجری، سرویلنس ڈرونز اور حقیقی وقت کی انٹیلی جنس کے ذریعے کامیابی سے مکمل کیا گیا، جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے گئے،
دراندازی کے راستے بند کیے گئے اور بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کیا گیا۔ آپریشن کی سب سے نمایاں خوبی اس کا نظم و ضبط اور انسانی پہلو تھا، جہاں اونچائی پر ہونے والی شدید لڑائی کے باوجود شہریوں کی جانوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دی گئی۔ اس آپریشن نے بھارت کے اس نظریے کو اجاگر کیا کہ اس کی فوجی کارروائیاں دشمنی سے نہیں بلکہ ضرورت اور خود دفاع کے اصول پر مبنی ہوتی ہیں۔ فوج نے دہشت گردی کے خطرے کو بے اثر کرتے ہوئے بیک وقت انسانی امداد، طبی کیمپوں، بحالی کے پروگراموں اور تعلیمی و کھیلوں کی سرگرمیوں کے ذریعے سرحدی دیہات میں امن و ترقی کا ماحول پیدا کیا۔ اس طرح آپریشن سندھور محض ایک عسکری کارروائی نہیں رہا بلکہ قومی تعمیر نو، انسانی سلامتی اور علاقائی استحکام کا ایک مکمل مشن بن گیا۔ بین الاقوامی سطح پر اس آپریشن نے بھارت کے بطور ایک ذمہ دار اور امن دوست ملک کے امیج کو مضبوط کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے ایک سنگین سکیورٹی خطرے کا مقابلہ کرتے ہوئے تحمل، متناسبیت اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی پاسداری کی، جو جدید انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک مثال ہے۔ کئی عالمی ماہرین نے آپریشن سندھور کو جدید، انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں کا کامیاب ماڈل قرار دیا، جس نے یہ ثابت کیا کہ محدود اور درست کارروائیاں بڑے پیمانے کے تنازعات سے زیادہ مو¿ثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ بھارت نے اس دوران دشمن قوتوں کے پروپیگنڈہ کا بھی بھرپور مقابلہ کیا اور عالمی سطح پر یہ تاثر قائم کیا کہ وہ جارح ملک نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہے۔
اندرونِ ملک اس آپریشن نے عوامی حوصلے بلند کیے اور بھارتی فوج پر اعتماد میں اضافہ کیا، ساتھ ہی قوم کے اتحاد و فخر کو بھی نئی توانائی بخشی۔ پونچھ بریگیڈ کے بریگیڈیئر مدیت مہاجن کی قیادت میں فوجیوں نے جو پیشہ ورانہ مہارت، بہادری اور حکمت عملی کا مظاہرہ کیا، وہ مستقبل کے فوجی رہنماو¿ں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپریشن سندھور نے ثابت کیا کہ بھارت کا دفاعی نظریہ ردعملی پالیسی سے آگے بڑھ کر فعال مزاحمت اور تکنیکی جدت پر مبنی ہو چکا ہے۔ آخرکار، آپریشن سندھور محض ایک فوجی کامیابی نہیں بلکہ بھارت کے اس وسیع تر فلسفے کی تصدیق ہے کہ امن طاقت، نظم و ضبط اور اصولوں کے امتزاج سے حاصل ہوتا ہے۔ اس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بھارت کی طاقت جارحیت میں نہیں بلکہ اس کے اخلاقی عزم، انسانی ہمدردی اور خودمختاری کے دفاع میں مضمر ہے۔ “سندھور” کی سرخی مائل چمک میں دنیا نے ایک ایسے بھارت کو دیکھا جو امن کے لیے مضبوط ہے، مگر دہشت گردی کے خلاف اس سے بھی زیادہ مضبوط۔














