نیوز انٹرونشن کی خصوصی اسٹوری
پاکستان کے سپریم کورٹ سے خود کو صادق و امین قرار دینے والے پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے چہرے پر ایمانداری کا نقاب مکمل طور پراتر چکا ہے۔ابراج ٹائیکون عارف نقوی کے لندن میں گرفتاری کے بعدپاکستان سے منی لانڈرنگ کی روٹسامنے آگئی ہے اور عمران خان کووزارت عظمیٰ تک لانے والوں کی کرپشن و منی لانڈرنگ بھی عوام کے سامنے آشکار ہو گئی ہے۔
ابراج ٹائیکون عارف نقوی کوعمران خان کے قریبی عزیز اورپارٹنرکہا جاتا ہے جودونوں پاکستان سے غیر قانونی طریقوں سے کمائے گئے پیسوں کو بیرون ملک آف شور کمپنیز اور پراپرٹی کے کاموں میں لگاکرسیاہ کو سفیدکرکے پاکستان کی معیشت کو تباہ اور ملک کو ڈوبنے کے کگار پر لے آئے ہیں۔
پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی نے گذشتہ دنوں سات سال سے پنڈنگ میں رہے وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے فارن فنڈنگ کیس سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ (پی ٹی آئی) نے 65 بنک اکاؤنٹس میں سے صرف 12 بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کمیشن کو آگاہ کیا اور 53 اکاؤنٹس چھپائے گئے جن میں پی ٹی آئی نے پانچ سالوں کے دوران 32 کروڑ کی رقم چھپائی ہے۔
پی ٹی آئی کے بانی اورمنحرف رکن اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ لینے کے معاملے پر الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔جس میں الزام تھا کہپی ٹی آئی کو بیرون ممالک سے بھاری رقوم فنڈنگ کی مد میں حاصل ہوئی۔لیکن عمران خان کے پیچھے کھڑے طاقتور عسکری اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن کمیشن کو اس کیس کودبانے کا حکم دیا تھا۔
ڈھائی سال بعداگست 2017کو الیکشن کمیشن نے اس غیر ملکی فنڈنگ کیس کو اوپن کیا۔جس پرپی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو کیس کی سماعت روکنے کی درخواست کی لیکن اسے مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کوریکارڈ جمع کرانے کے لیے سات ستمبر تک کی مہلت دی گئی تھی۔
لیکن سال2018کے عام انتخابات میں جب عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوگئے تو مذکورہ کیس کو پھر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔لیکن اپوزیشن کی جانب سے کیس اوپن کرنے کی بار مطالبات اور پھر نئے چیئرمین الیکشن کمیشن جناب سکندر سلطان کی تعیناتی کے بعد اس کیس کو سات سال بعد اوپن کیا گیاجس میں الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس کیس کے حوالے سے رقومات کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے اس کیس کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے مختلف کمرشل بینکوں میں موجود کل 26 اکاؤنٹس میں سے آٹھ کو ظاہر کیا اور ان کی تفصیل الیکشن کمیشن میں عمران خان کے دستخطوں سے جمع کرائی۔لیکن 18 اکاؤنٹس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بے نامی اکاؤنٹس تھے جن میں بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ جمع کی جاتی رہی۔ لیکن یہ فنڈنگ کہاں خرچ ہوئی اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ پاکستان کی حزبِ اختلاف انہی بے نام اکاؤنٹس کی بنیاد پر تحریک انصاف کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی 2013-2012 کی آڈٹ رپورٹ پر بھی کوئی تاریخ درج نہیں۔ یاد رہے کہ آڈٹ رپورٹ پر تاریخ نہ ہونا اکاؤنٹنگ معیار کے خلاف ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ آڈٹ فرم کی فراہم کی گئی کیش رسیدیں بھی بینک اکاؤنٹس سے مطابقت نہیں رکھتی۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے پانچ سال کے دوران 32 کروڑ کی رقم چھپائی، اسکروٹنی کمیٹی کو تحریک انصاف کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے بینک اکاؤنٹس تک بھی رسائی نہیں دی گئی۔
درخواست گزار اکبر ایس بابر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ، ڈنمارک، آسٹریلیا سمیت مشرقِ وسطیٰ میں پی ٹی آئی نے فنڈنگ حاصل کی۔ پانچ سالوں میں پی ٹی آئی اسکروٹنی اور تحقیقات سے بھاگتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو جو ریکارڈ فراہم کیا گیا وہ اُس رقم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہذٰا فنڈز میں خرد برد کی گئی۔اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ کیس پاکستان کی بقا کا کیس ہے، اگر اس کیس کا بروقت فیصلہ ہو جاتا تو پاکستان آج نہ ڈوبتا، اگر اس کیس کا فیصلہ نہ کیا گیا تو پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔
غیر ملکی فنڈنگ کیس عمران خان کے سر پر ایک لٹکتی ہوئی تلوارتھی جو اس کے منی لانڈرنگ سے جڑے سب پہلوآشکار کرسکتی تھی لیکن عسکری اسٹیبلشمنٹ نے پانچ سالوں تک اس کیس کو دبائے رکھا اور عمران خان کی بد عنوانی کو چھپانے، انہیں ایک ایماندار کے طور پر پیش کرنے اور اپنی ساکھ بچانے کی پوری کوشش کی لیکن اب ابراج ٹائیکون عارف نقوی کے لندن میں گرفتاری کے بعدپاکستان سے منی لانڈرنگ میں ملوث عمران خان کانام براہ راست سامنے آگیاہے۔
عارف نقوی کون ہیں؟
عارف نقوی ابراج کیپیٹل لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ابراج کیپیٹل لمیٹڈ ایک انوسٹمنٹ کمپنی ہے جومختلف ممالک کے اندر سرمایہ کاری کرتیہے۔کہتے ہیں کہ لوگ اس کو پیسے دیتے تھے اور وہ سرمایہ کاری کرتی تھی۔اربوں کا روپے اس نے لیا ہواتھا جس میں پاکستانی سمیت مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس بھی شامل تھے۔
عارف نقوی کی کمپنی انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں ہیلتھ بزنس کر رہی ہے۔جبکہ پاکستان میں کراچی الیکٹرک کمپنی(کے الیکٹرک) کے اندر بھی اس کا اسٹیک ہے۔مسٹر نقوی، جنہیں پہلے شارجہ میں گرفتار کیا گیاتھاجہاں پھر امریکیوں نے اس کا ڈیٹا لیکر تجزیہ کیااور کہا کہ انہیں ان کے حوالے کیا جائے لیکن جب وہ شارجہ سے رہا ہوئے سیدھا پاکستان گئے۔اور اسلام آباد کے راستے دبئی جاتے ہوئے لندن کے ہوائی اڈے پرانہیں 2019میں گرفتار کیا گیا تھا، جو ابھی ہاؤس ارسٹ ہیں جنہیں 2014 سے 2018 کے درمیان دھوکہ دہی اور متعلقہ منی لانڈرنگ کے 16 الزامات کا سامنا ہے۔
اس پر ”ابراج کو بدعنوانی کرنے والے مجرمانہ ادارے کا لیڈر” ہونے کا الزام ہے اور جرم ثابت ہونے پر اسے 30 سال تک قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔وزارت کے ایک نمائندے کے کا کہنا ہے کہ ایک ضلعی جج نے جنوری میں اس کی حوالگی کا حکم دیا، اس فیصلے کو ہوم سکریٹری پریتی پٹیل نے برقرار رکھا۔
ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی کو امریکہ میں بھی اپنی کمپنی سے متعلق مالیاتی غلط کاموں کے الزامات کا سامنا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اپریل 2019 میں اس کی گرفتاری کے بعد اور اس کے بعد کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے خاندان کے کسی فرد کو نہیں دیکھا۔
ابراج مشرق وسطی میں سب سے بڑا بائے آؤٹ فنڈ تھا۔جب 2018 کے وسط میں اس کے منہدم ہونے کے بعد سرمایہ کاروں نے بدانتظامی کا خدشہ ظاہر کیاتو انہوں نے تجارت روک دی۔ ابراج نے قرض دہندگان کو ایک بلین ڈالرسے زیادہ کا مقروض کردیا۔استغاثہ کا الزام ہے کہ وہ اپنے گروپ آف بزنس کی غیر تسلی بخش پوزیشن کو چھپانے کے لیے فنڈز سے پیسے لینے اور مالیاتی ریکارڈ کو جھوٹا بنانے کی سازش کا مرکز تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ تقریباً 250 ملین ڈالر مسٹر نقوی کے خاندان کے فائدے کے لیے گئے اور دیگر رقوم پاکستان میں ایک سیاست دان کو رشوت دینے کے لیے استعمال کی گئیں تاکہ پاکستان کے ”کے الیکٹرک“کمپنی میں ابراج کا جو سرمایہ کاری ہے اس کی فروخت کی منظوری حاصل کی جا سکے۔
جائیداد کی ملکیت کے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ لندن سے تقریباً 100 کلومیٹر مغرب میں واقع ووٹن پلیس، آکسفورڈ شائر کی اس کی نیم دیہی اعتکاف گزشتہ سال ستمبر میں ایک ممتاز کاروباری شخص کو £2.75 ملین کے منافع میں فروخت کی گئی تھی جس کی قیمت مسٹر نقوی نے اکتوبر 2006 میں ادا کی تھی۔
عارف نقوی اور عمران خان کے تعلقات
پاکستان میں کراچی کے الیکٹرک کمپنی ”کے الیکٹرک“کے اندر ابراج کیپیٹل کو جو اسٹیک تھا وہ آصف زرداری کے دور صدارت میں بیچا گیا تھا۔اسی دور میں جب بلین ڈالر کے عوض کراچی اسٹاک ایکسچینج چائنا کو دیا گیاتھا تو انہیں یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ آپ یہاں پاور پروجیکٹ لگا رہے ہیں تو”کے الیکٹرک“ کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اس کی ڈسٹری بیوٹر بھی خود کرلیں تاکہ ہمارے مسائل حل ہوجائیں۔اس پر چائنا نے کہا کہ ”کے الیکٹرک“ کے خلاف 800 ملین ڈالرزکی ایک لائبلٹی ہے اگر پاکستان یہ اٹھائے گا توہم اسے سنبھال لینگے۔
اب ہو تا یہ تھا کہ ابراج کیپیٹل کی کمپنی ”کے الیکٹرک“ مختلف حیلوں بہانوں سے بجلی مکمل بند کردیتا تھااور کراچی میں لوڈ شیڈنگ سے عوام کا جینا حرام ہوتا تھاتواس پر پیپلز پارٹی کی حکومت پریشان ہوجاتی تھی کیونکہ کراچی اس کی بیس ہے اورآصف زرداری ملک کے صدر ہیں تو وہ بھاگے بھاگے ”کے الیکٹرک“کے پاس جاتے تھے اور بجلی بندش کی وجہ پوچھتے تھے۔تو انہیں کہاجاتا تھا کہ کمپنی کے پاس بجلی نہیں ہے کیونکہ ”سوئی سدرن گیس کمپنی“انہیں گیس نہیں دے رہی ہے جس سے ہم بجلی نہیں بنا پارہے ہیں۔
جب”سوئی سدرگن گیس کمپنی“ سے اس معاملے پر باز پرس کی جاتی تھی تو ان کاموقف یہ ہوتا تھاکہ یہ طے پا چکا ہے کہ25 فیصد بجلی ”کے الیکٹرک“ گیس سے بنائے گی،25فیصد اسے نیوکلیئر بجلی ملے گی،25 فیصد کومی گریڈ سے بجلی بنائے گی اور25 فیصد بجلی وہ خود بنائینگے۔اور یہ خود بنانے والا جوپورشن ہے جو فنس آئل یا ڈیزل سے بننی ہے ”کے الیکٹرک“اسے بھی گیس سے بنانا چاہتی تھی کیونکہ فنس آئل یا ڈیزل سے بجلی مہنگی بن جاتی تھی اور انہیں منافع کمانا تھا۔
اب ”کے الیکٹرک“ کمپنی یہی بہانا بناتاتھا کہ”سوئی سدرن گیس کمپنی“ہمیں گیس نہیں دے رہی ہے اسی لئے بجلی نہیں ہے،لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔اور وہ لوڈ شیڈنگ کا سارا ذمہ دار سوئی سدرن گیس کمپنی پر ڈالتے تھے اور سوئی سدرن گیس کمپنی والے بلیک میل ہوجاتے تھے۔پھر پیپلز پارٹی کی حکومت مجبوراً لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے سوئی سدرن گیس کمپنی کو حکم دیتی تھی کہ”کے الیکٹرک“ کے گیس بڑھادو۔ اور گیس کمپنی یہ کہتی تھی کہ ”کے الیکٹرک“ بل نہیں دیتی ہے اورپہلے سے اس پر بہت ساراپیسہ واجب الاداہیں لیکن حکومت کہتی تھی کوئی بات نہیں گیس بڑھادو۔اور ایسا کرتے کرتے اس دور میں اس نے 800ملین ڈالر منافع کمایا اور گیس کمپنی کو ایک بل بھی ادا نہیں کیا گیا۔یعنی ابراج کیپیٹل کے اس”کے الیکٹرک“کمپنی نے سوئی سدرن گیس کمپنی کے غلط طریقے سے 800ملین ڈالر ہڑپ کرلیے۔
پھر نواز شریف کے دور حکومت میں ابراج کیپیٹل کے عارف نقوی پر”کے الیکٹرک“ کے نام پر میگا کرپشن کرنے پر انکوائریاں بٹھا ئی گئیں۔لیکن اس وقت عارف نقوی تمام پیسے پاکستان سے باہر نکال چکے تھے۔2019میں جب وہ لندن میں گرفتار ہوتے ہیں تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیلئے کس کو بتایا جائے کہ آپ گرفتارہوگئے ہیں تو انہوں نے کہا پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کوبتایا جائے کہ مجھے گرفتار کرلیا گیا ہے۔
اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ لندن میں عارف نقوی پر جوا نکوائری چل رہی ہے جس میں ثابت ہوگئی ہے کہ منی لانڈرنگ سے تقریباً 250 ملین ڈالر مسٹر نقوی کے خاندان کے لیے استعمال کئے گئے اور550ملینڈالرز پاکستان میں ایک سیاست دان کو رشوت دینے کے لیے استعمال کی گئیں اور وہ سیاست دان عمران خان تھے۔یعنی اس طرح ابراج ٹائیکون کی لنک جناب عمران خان سے جاملتی ہے۔
پی ٹی آئی پر جو فارن فنڈنگ کیس ہے جس میں شاطرانہ طریقے سے اکاؤنٹس کو چھپا یا گیا ہے اور اس کیس کو پانچ سال تک دبائے رکھا گیا ہے توظاہر ہے اس پوری کہانی کے پیچھے عمران خان اور اس کے پیچھے کھڑے وردی والوں کی منی لانڈرنگ کا گھناؤنا کاروبار ہے جس کی سربراہی ابراج کیپیٹل کے عارف نقوی کررہے تھے۔اب یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ ابراج کیپیٹل کے عارف نقوی نے کراچی میں ”کے الیکٹرک“کے ذریعے جو800سوملین ڈالرکی منی لانڈرنگ کی گئی تھی اوراس میں براہ راست عمران خان ملوث ہیں۔
مسٹرعارف نقوی”کے الیکٹرک“کے منی لانڈرنگ سے عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال کوڈونیشن دیتے تھے۔عمران خان کی حکومت آنے کے بعد عارف نقوی پر نواز شریف دور کے تمام انکوائریاں اور کرپشن کے کیسز دبائے گئے اور اس کے کمپنی کو ہر طرح کی مراعات اور سہولیات دیئے جانے لگے۔حکومتی کابینہ کے ایک اجلاس میں عمران خان نے عارف نقوی سے پیسے نہ لینے اور ان پر واجب الادا رقم معاف کرنے کا فیصلہ بھی کیاتھا۔
سابق ڈی جی ایف آئی اے جناب بشیر میمن کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے 80ارب روپے کی وصول کیلئے عارف نقوی کے خلاف کیس شروع کیا توعمران خان نے انہیں بلا کر ڈانٹا کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کار آتے نہیں ہیں اورتم نے عارف نقوی کے خلاف ایکشن کیوں لیا؟ یہاں یہ بات بالکل عیاں ہے کہ کس طرح عمران خان کرپشن کرتے ہیں۔
عمران خان اور عارف نقوی کی منی لانڈرنگ
ابراج کیپیٹل اور عمران خان ملکر کس طرح منی لانڈرنگ کرتے تھے۔اس سلسلے میں ابراج کیپیٹل میں سے جو کارپوریٹس سوشل ریسپونسبلٹی کے تحت کارپوریٹ اینٹٹی نے ہر سال ڈونیشن دینی ہوتی ہے وہ ڈونیشن عمران خان کے شوکت خانم ہسپتا ل کودی جاتی تھی۔جب پیسے شوکت خانم کے پاس آتے تھے، رسید کٹ جاتی تھی اور پیسے اکاؤنٹ میں ظاہر کردیئے جاتے تھے۔ اور پھر شوکت خانم اس رقم کو آف شور کمپنی میں انوسٹ کرتاتھا۔اور یہ بات عمران خان عوامی سطح پر خود اعتراف کرچکے ہیں۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ آف شورکے اندر کمپنیوں کا کوئی پہچان نہیں کہ انہیں کون چلاتا ہے اورکوئی نہیں جانتاکہ اس کے پیچھے کون ہے۔ اور پھر وہ کمپنی کچھ وقت کے بعد ڈیفالٹ ڈیکلیئر کردیتی ہے اور پھر وہ کمپنی ختم ہوجاتی ہے۔اور چونکہ شوکت خانم کی انوسٹمنٹ اس کمپنی کے اندر اسکی انشور نس ہوئی ہوئی تھی،اسی لئے انشورنس کمپنی نے اس کو سارے پیسے ادا کردیئے۔اس طرح یہ پیسے واپس شوکت خانم یعنی عمران خان کے پاس آگئے اور قانونی ہوگئے لیکن وہ آف شور کے اندر جوکمپنی تھی جسے ختم کیا گیا تھا وہ کون تھی؟کوئی بھی اس کا نام معلوم نہیں کرسکتا۔ لیکن حقیت یہ ہے وہ کمپنیاں عارف نقوی خود بناتے تھے اور پھراس راستے سے وہ پیسے لی جاتے تھے اور انہیں ڈبل کردیتے تھے۔
کہاجاتا ہے کہ لندن میں عارف نقوی کی گرفتاری کی وجہ یہ تھی کہ عارف نقوی اور عمران خان پاکستان میں منی لانڈرنگ کی رقم لندن لے جاتے تھے اور وہاں پراپرٹی کی خریدو فروخت کا کاروبار چلاتے تھے۔جو وہاں سیکورٹی اداروں کے نظر میں آگئے۔ اب عارف نقوی تو ہاؤس ارسٹ ہیں اور انکوائری چل رہی ہے اور ا سکے منی لانڈرنگ کے باقاعدہ روٹس عمران خان سے جا ملنے کے شواہد سامنے آگئے ہیں۔
عمران خان اپنے جلسوں میں یہ بات کئی بارکہہ چکے ہیں کہ لوگ پاکستان میں غیر قانونی طریقوں سے پیسے کماتے ہیں، انہیں آف شور میں ڈالتے ہیں اور پھر لندن میں جاکر پراپرٹی خریدتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ آپ جو کام کر رہے ہوتے ہیں تو ناداستہ طور پرآپ کے زبان پر اس کا ذکر آجاتا ہے۔یعنی عمران خان اپنے جلسوں میں جو غیر قانونی طریقوں سے پیسے کمانے اور انہیں آشور کمپنیوں میں لگانے کو جو بات کرتے تھے اصل میں وہ اپنی منی کا ٹریل بتارہے ہوتے تھے کیونکہ وہ وہی کام کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی پر فارن فنڈنگ کیس اوراب ابراج ٹائیکون عارف نقوی کی لندن میں گرفتاری اورعمران خان سے تعلق، مشترکہ منی لانڈرنگ اور 550ملین ڈالرز عمران خان کیلئے بھیجنے کے انکشافات نے سب شک کلیئر کردیئے کہ پاکستان میں 2018کے عام الیکشن میں حصہ لینے کیلئے عمران خان کے پارٹی کیلئے فنڈزکہاں سے آئی۔؟ اسی لئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس پاکستان کی بقا کا کیس ہے، اگر اس کیس کا بروقت فیصلہ ہو جاتا تو پاکستان آج نہ ڈوبتا، اگر اس کیس کا فیصلہ نہ کیا گیا تو پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔
پاکستان کے عسکری اسٹیبلشمنٹ کا”عمران خان پروجیکٹ“جسے پاکستان لوٹنے کیلئے دس سال کا عرصہ لگاکربڑی محنت سے تیار کرکیا گیا تھااب مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور عوام سے جوسب کچھ چھپا یا گیاتھا وہ سب سامنے آگیا ہے کہ کس عسکری اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف اورآصف زرداری کو کرپٹ ظاہرکرکے انہیں مین اسٹریم سیاست سے الگ کردیا اورعمران خان کو تیارکرکے عوام کے سامنے ایک ایماندار،محب وطن اورعوام دوست کی صورت میں پیش کیا تھا۔لیکن عسکری اسٹیبلشمنٹ اب مالی بدعنوانی، منی لانڈرنگ اور پاکستان کی معاشی تباہی کاسارا ملبہ عمران خان کے سر لگا کر خود پتلی گلی میں نکل رہا ہے۔
٭٭٭