پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں ابھرتی مذہبی شدت پسندی۔ نیوز انٹرونشن رپورٹ

0
156

پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں مذہبی شدت پسندی میں سر فہرست رہا ہے، لیکن 1990 کے بعد لیفٹ کے خیالات پروان چڑھنا شروع ہوئے تو بہت کم ہی سہی لیکن کسی حد تک سیکولر مائنڈڈ لوگ پیدا ہوئے جس کے باعث بہت ہلکے پیمانے پہ ہی سہی لیکن سیاسی مزاحمت پیدا ہوئی۔

پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیر کے دس اضلاع میں سے مظفر آباد، نیلم، ہٹیاں بالا، فاروڈ کہوٹہ میں آج بھی کثرت سے شدت پسندی پائی جاتی ہے ایک اندازے کے مطابق ان 4 اضلاع میں 32 دینی مدارس ہیں جو باقاعدہ دہشت گردوں کی فیکٹریاں ہیں اسی طرح باغ اور راولاکوٹ میں بھی سپہ صحابہ, لشکر طیبہ۔,لشکر جھنگوی، جماعت الدعوہ۔،کے لوگ موجود ہیں جن کا کام ہی صرف خود کش بمبار اور مزہبی انتہاء پسند پیدا کرنا ہے۔ایسے لوگ کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دینی مدارس کے ساتھ ساتھ این جی اوز بھی چلاتے ہیں اور فلاحی کام کے نام پہ کروڑوں اکھٹا کرتے ہیں جو کہ اپنے مشن پہ کام کرنے کے کام آتے ہیں ان لوگوں کے مقاصد میں بائیں بازو کے لوگ خاص ٹارگٹ میں ہوتے ہیں بائیں بازو کے لوگوں کو ٹارگٹ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ بلکہ ایک ایک بندے کے خلاف بائی نام مہم کرتے ہیں جو پراپر نشانے پہ رکھ کر مذہب کا نام استعمال کرکہ خراب کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ منفی پروپیگنڈہ کھل کر کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سر نہ اٹھا سکیں۔کیونکہ ان کے سر اٹھانے سے مذہبی پیشواوں کو شدید دقت ہوتی ہیں اور سوالات کرتے ہیں۔ اس کام کے لئے پاکستان کے خفیہ اداروں کی باقاعدہ مکمل حمایت حاصل ہے۔

ضلع میرپور بھمبر کوٹلی میں خفیہ اداروں کی طرف سے مذہبی رہنماوں کو ایک الگ طرح کی سپورٹ ملتی ہے گوکہ مذہبی جہادی ایک بڑی تعداد میں یہاں بھی موجود ہیں لیکن طریقہ واردات تھوڑا مختلف ہے کیونکہ اس ریجن کے لوگ پیری مریدی کرنے والی قسم کے لوگ ہیں جیسے مذہبی زبان میں بریلوی مسلک کہا جاتا ہے یہاں ایسے لوگوں کے خیالات سے کھیلا جاتا ہے اور دوسرے آضلاع کے لوگوں کے خیالات سے اختلاف بھی پایا جاتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نام نہاد آزاد کشمیر کے لوگوں کو تقدیم رکھنے کے لئے مذہبی کارڈ کھیلا جاتا ہے جس سے فراوایت کی بنیاد پہ لوگ تقسیم ہوتے ہیں کئی اکٹھا نہیں ہوپاتے ایک اندازے کے مطابق ان ایریاز میں (میرپور بھمبر کوٹلی) میں ستائیس کے قریب مدرسے ہیں جو بریلوی مسلک کے ہیں جبکہ چار طالبان کے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں جب طالبان تیار کر کہ انڈین کشمیر میں سرعام بھیجے جاتے تھے ان کا مرکز کوٹلی رہا،ضلع سندھنوتی راولاکوٹ خاص کر مجاہدین کے لوگ موجود ہیں۔ نیلم۔ ہٹیاں بالا۔ فاروڈ کہوٹہ کوٹلی ایسے اضلاع ہیں کی بارڈر ڈائرکٹ انڈین کشمیر سے ملتی ہے پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں جیتنے بھی مجاہدین تیار کئے جاتے ہیں انہی اضلاع کے راستے پار سمگل کِے جاتے ہیں جو وہاں جا کہ دہشت گردی پھیلاتے ہیں جس کا خمیازہ عام عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے پنجے مضبوطی سے کشمیر میں خاص کر باغ راولاکوٹ میں گھاڑ رکھے ہیں جو کہ مجاہدین کی ایک فیکٹری ہے سابق امیر جماعت اسلامی عبد الرشید ترابی کا تعلق بھی باغ سے ہے جو باغ کے سینکڑوں نوجوان کو بھلی کا بکرا بنا چکا تاحال اس پہ کام جاری ہے۔ جماعت اسلامی،لشکر طیبہ جماعت الدعوہ،لشکر جھنگوی کو اگر پاکستان آئی ایس آئی کا عسکری ونگ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ نیز باغ کے مشہور سیاحتی مقام گنگا چوٹی جو سطح سمندر سے دس ہزار فٹ بلند ہے کا شمار کشمیر کی بلند ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس مقام پہ اب بھی جماعت الدعوہ کی ایک چوکی لگی ہے یہاں آئی ایس آئی کا ایک بندہ بھی مجاہدین کے ساتھ ڈیوٹی پہ معامور رہتا ہے ان کام کام انڈین کشمیر میں بھجے گئے مجاہدین سے رابطے وہاں کی صورتحال سے واقفیت اور
ان کو ٹارگٹس دینا بھی ہے مجاہدین کا ایک پرمنٹ شخص وہاں رہتا ہے سردی ہو گرمی ہو برف ہو یا دھوپ وہ ڈیوٹی سر انجام دیتا ہے واضح رہے یہ شخص آرمی میں تھا جیسے یہ ڈیوٹی ملنے کے بعد عوام کو دیکھانے کے لئے آرمی سے بورڈ بھجیا گیا تھا جس نے آتے ہی دوسرے روز چوکی سنبھال لی تھی۔

پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی سربرائی میں باقاعدہ یہ کام کرتے ہیں اور ہندوستانی کشمیر میں مذہبی شدت پسندی کوپروان چھڑانے کے ساتھ یہاں سے انکو دہشت گردی کے لیے وہاں بھیجا جاتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں