لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین کی پاکستان حوالگی و جبری گمشدگی کو تین سال مکمل ہونے پرمقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔مظاہرے میں طلباء تنظیموں کے ارکان سیاسی کارکنان سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین شریک ہوئے۔راشد حسین کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات کے شارجہ سے وہاں کے خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جہاں بعد میں 22 جون 2019 کو بلوچ کارکن کو پاکستان لایا گیا ہے- راشد حسین کے لواحقین کے مطابق راشد کو اماراتی حکام نے پاکستان کے کہنے پر غیرقانونی طریقہ سے پاکستان منتقل کردیا ہے جبکہ راشد حسین کے جان کو پاکستان میں خطرہ ہے اور وہ جلاء وطنی میں زندگی گزار رہا تھا۔
یاد رہے راشد حسین کی پاکستان منتقلی کی تصدیق کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کراچی کے انچارج عبداللہ شیخ نے 3 جولائی کو ٹی وی انٹریو کے ذریعے کیا تھا۔ عبداللہ شیخ کے مطابق راشد حسین کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لایا گیا ہے۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے راشد حسین کے والدہ کا کہنا تھا کہ امارات میں جبری گمشدگی کے بعد سے انکا بیٹا منظر عام پر نہیں آسکا ہے۔راشد کی والدہ کے مطابق بیٹے کو بلوچستان میں جاری مظالم پر لب کشائی پر لاپتہ کیا گیا۔
مظاہرے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے کیسز میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے لوگوں کو بازیاب کرنے کے بجائے جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے جب وزیر اعظم یہاں آئے تو کہہ رہے تھے کہ وہ طاقتور حلقوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بات کرینگے پتا نہیں ملک کے وزیر اعظم سے زیادہ کونسا ادارہ زیادہ طاقتور ہے۔نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین آئے روز اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں تاکہ مقتدرہ حلقوں تک اپنی فریاد پہنچا سکیں لیکن یہاں ان لواحقین کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔