پاکستانکی رجیم اور اس کی ڈارک فورسز جبری گمشدگیوں کے جنگی جرائم کے آڑ میں ایک ایسی نسل کش پالیسی پرگامزن ہیں جس سے بلوچ قوم کی نیو جنریشن کی بقا مکمل طور پر خطرے سے دوچار ہے۔طلبا کی ایک بڑی تعداد کو جبراً لاپتہ کرکے ان کیلئے تعلیم کی حصول کے دروازے بندکردیئے گئے ہیں اور یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے لیکن اس پر نہ بلوچ قوم کی قیادت سنجیدہ پوزیشن لئے ہوئے ہے اور نہ ہی علمی و دانش ور حلقوں میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ بلوچستان یا بلوچستان سے باہرجبری گمشدگیوں کے رونما ہونے والے وارداتوں کے تصدیق شدہ اعدادو شمار کے مطابق اب تک تیس ہزار سے زائد بلوچ ریاستی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ جبکہ دس ہزارسے زائد لاپتہ افراد کی حراستی قتل کی تصدیق ہوئی ہے جنہیں جعلی مقابلوں اور اذیت گاہوں میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناکر ہلاک کیا گیا ہے۔ جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کئے گئے افراد میں خواتین و بچے سمیت بوڑھے و بزرگ بھی شامل ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں نوجوانوں کی تعدادنوے فیصد بتائی جارہی ہے۔جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ریاستی اداروں کا فوکس بلوچ نوجوان نسل یعنی نیو جنریشن پر مرکوز ہے۔اور یہ اقدام بلوچ قوم کی بقا کے سوال پر تشویش میں اضافہ کرتا ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا سلسلہ اگرچہ مرحوم بلوچ رہنما سردارعطاللہ خان مینگل کے صاحبزادے اسد مینگل اور اس کے دوست احمد شاہ سے شروع ہوتی ہے لیکن 2009میں جب سرکردہ بلوچ رہنما غلام محمد بلوچ اور اس کے دو ساتھیوں لالہ منیر اور شیر محمد بلوچ کی جبری گمشدگی اور پھر ان کی بہیمانہ حراستی قتل کے بعد اس سلسلے نے باقاعدہ ایک ٹریک پکڑ لی جو تشویشناک وبھیانک روپ دھار کرتیزی کے ساتھ ہنوز جاری ہے۔ ایک دہائی سے زائد جاری جبری گمشدگیوں کے واقعات نے بلوچستان اور بلوچ حلقوں میں ایک انسانی المیے کوجنم دیاہے۔کوئی گھر ایسا نہیں بچاجہاں کوئی شخص لاپتہ نہ ہو۔بلوچ قوم جبری گمشدگیوں کے اذیت کوش آزارکوجی رہا ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ایک دہائی سے احتجاجی کیمپ لگائے اس انسانی المیے کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہی ہے۔اسی طرح انفرادی طور پربلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اورطلبابلوچستان، سندھ اورپنجاب میں اپنے پیاروں اور ساتھیوں کی بازیابی کی تحریک چلا رہے ہیں اور خواتین و بچے احتجاجی کیمپ قائم کرکے سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ بلوچستان ہو یا سندھ و پنجاب جبری گمشدگیوں کے خلاف آوازاٹھانے والوں میں متاثرہ خاندان پیش پیش ہیں جبکہ اس سلسلے میں سیاسی پارٹیوں کاکردار نہ ہونے کے برابر ہے۔پاکستانی سیکورٹی فورسزوخفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والوں کا تعلق چاہے کسی سیاسی جماعت سے ہو لیکن اس کی بازیابی کی تحریک اس کی فیملی کے کاندھوں پرآ پڑتا ہے جو جماعتوں کے سیاسی کردار اور اہلیت پر سوال
بھی کھڑا کررہا ہے۔
26اپریل کو جب پاکستان کے صوبہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پر ایک فدائی حملے میں 3چینی شہری ہلاک ہوتے ہیں۔اورپھر بی ایل اے جب اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اوراسے ایک فدائی حملہ قرار دیکر فدائی شاری بلوچ کی تفصیلات میڈیا کو جاری کرتاہے تو اس کے ردعمل پرریاستی سیکورٹی ادارے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلبا کو چن چن کرجبراً لاپتہ کرنے کا ایک کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہیں۔جس سے بلوچ حلقوں میں ایک بڑی تشویش اور بے چینی جنم لیتا ہے۔
اگرچہ گذشتہ ایک دہائی سے زائد جبری گمشدگیوں کے وارداتوں میں بڑے پیمانے پر ینگ جنریشن زیادہ متاثر ہے لیکن ایک باوثوق ذرائع کے مطابق کراچی حملے کے بعدپاکستان اور چین کے سیکورٹی ادارے سی پیک اور دیگر سرمایہ کاری کوتحفظ دینے،بلوچ قومی تحریک آزادی کوکاؤنٹر کرنے اور بلوچ ساحل و وسائل پر اپنے قبضے اور اثرو رسوخ کو بڑھانے کیلئے ایک مشترکہ پالیسی بناتے ہیں جس کا مین مقصد و محوربلوچ طلباوطالبات اور نیو جنریشن کوبریکٹ کیا جاتا ہے۔کیونکہ ان کا یہ مشاہدہ ہے کہ بلوچستان کی شورش میں مین کردار نیو جنریشن کا ہے اگر اسے نہیں روکا گیا تو اس کے نتائج نہ صرف پاکستان کے ٹوٹنے کا باعث بنیں گے بلکہ غیرملکی سرمایہ کاری کا راستہ بند ہونے اور سی پیک جیسے میگا پروجیکٹس بھی تکمیل سے رہ جائیں گے۔
اب ذراغور کریں کراچی حملے کے فوری بعد جبری گمشدگیوں میں بے پنا اضافہ تودیکھنے میں آتا ہے لیکن اس جبری گمشدگیوں کا محور محض طلبا اورنوجوان کیوں ہوتے ہیں؟۔ کیوں دن دہاڑے ریاستی فورسز بلا خوف وخطر عالمی قوانین کا پرواہ کئے بغیر پاکستان کے اہم شہروں کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہوراوربلوچستان کے کوئٹہ، گوادر و دیگر شہروں سے بلوچوں کو جبراً لاپتہ کر رہے ہیں؟ اگر سنجیدگی سے دیکھیں تواس سوال کا جواب صاف ہے جو دونوں ممالک کی جانب سے بنایاگیا بلوچ نسل کش پالیسی پرعمل درآمدکو دکھاتا ہے۔
اب ان اس ساری صورتحال سے بلوچ قوم کی نیو جنریشن کی بقا مکمل طور پر خطرے سے دوچار دکھائی دے رہا ہے جو واقعی ایک تشویشناک اور بھیانک صورت لئے ہوئے ہے لیکن اس پالیسی کو کس طرح روکنا ہے اس پر بلوچ قیادت اورعلمی و دانشور حلقوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کیونکہ نیوجنریشن ایک قوم کی مستبقل ہوتی ہے اور اگر یہ نہ رہی تو قوم کا وجودمٹ جاتا ہے۔