پاکستان کے عدلیہ میں بدعنوانی ہے، سابق جج مقبول باقر

0
20

پاکستان کے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کہا ہے کہ جب بدعنوانی کی بات آتی ہے تو عدلیہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور ریاست کے اس اہم ستون میں خامیوں کا ججوں کی تعیناتی کے عمل سے براہ راست تعلق ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ’پاکستان کی عدلیہ سے بڑھتی ہوئی توقعات‘ کے عنوان سے ایک پینل مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد سے ہی ہماری عدلیہ میں ججوں کی شمولیت مناسب انداز میں نہیں کی گئی، قیام پاکستان کے بعد ہم نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے وراثت میں ملنے کے فوراً بعد اقربا پروری، جانبداری اور میرٹ کو قربان کردیا۔

پینل میں معروف قانونی ماہر اور تجربہ کار وکیل حامد خان اور ایک اور ممتاز وکیل پلوشہ شہاب بھی شامل تھیں، سیشن کی نظامت کے فرائض فیصل صدیقی نے سرانجام دیے۔

سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی حیثیت سے بھی ذمے داریاں انجام دینے والے جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کہا کہ کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں ہے، عدلیہ میں بھی بدعنوانی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس سطح پر ہے، ہمارے پاس بدنام زمانہ ممبران تھے، میں ان کا نام لے سکتا ہوں لیکن یہ ذاتیات پر حملہ ہوگا، اس لیے مجھے مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اداروں کے درمیان تصادم کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت پنپنے سے قاصر رہی۔

سابق جج نے کہا کہ کچھ لوگ جمہوریت کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بدقسمتی سے سیاستدانوں ہمارے ہاں آسان ہدف رہے ہیں جبکہ میڈیا بھی متاثرین کی فہرست میں شامل ہے، اس طرح کی مثالیں غیر جمہوری قوتوں کے لیے اتحاد کی راہ ہموار کرتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی جانب سے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کی مثالیں موجود ہیں، اسی طرح عدلیہ میں بھی خامیاں ہیں اور اس کا براہ راست تعلق عدلیہ میں ججوں کی شمولیت سے ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ’غیر جمہوری لوگوں‘ کو کبھی سزا نہیں دی گئی لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ اب ماحول بدل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی کسی پر دباؤ نہیں ڈال سکتا، اگر آپ مضبوط ہیں اور آپ کو خود پر یقین ہے تو کوئی بھی آپ پر دباؤ نہیں ڈال سکتا، آپ اس وقت تک پراعتماد نہیں ہو سکتے جب تک آپ خود مضبوط اور معاملہ فہمی کی بصیرت نہ رکھتے ہوں۔

انہوں نے ججوں کو اعلیٰ عدالتوں میں تعینات کرنے کے فیصلے کے حوالے سے قانونی برادری میں حالیہ اختلاف کے بارے میں بھی بات کی۔

سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ اکثریت اس عمل کے لیے قواعد کا مطالبہ کرتی ہے، طریقہ کار کے تعین کا مطالبہ کرتی ہے، عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ججوں کی شمولیت کا طریقہ کار اقربا پروری پر مبنی ہے، اگر شمولیت کا عمل بدعنوانی سے بھرا ہوا ہے تو مسائل سامنے آئیں گے کیونکہ یہ بدعنوانی صرف مالی نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور سیاسی بھی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں