بلوچ لبریشن آرمی کے چیف بشیر زیب کے ساتھ خصوصی انٹرویو

0
495

انٹرویو : ویویک سنہا

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ (فدائی بریگیڈ) نے 29 جون، 2020 کو کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا۔ اس جرات مندانہ حملے کی ایک علامتی اہمیت تھی کیونکہ اس نے پوری دنیا میں پرائم ٹائم نیوز پر بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو آگے دھکیلا۔

بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے اس خصوصی انٹرویو میں نیوز انٹرونشن کو بتایا کہ بلوچوں کی آزادی کے حامی گروپ پاکستانی حملے اور قبضے کے جواب میں تشدد کا استعمال کرتے ہیں۔
بی ایل اے کا کراچی حملہ دنیا کے لئے یہ پیغام تھا کہ پاکستان نے بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا ہے اور وہ چین کی مدد سے بلوچستان کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ کراچی حملہ حالیہ برسوں میں بی ایل اے کا تیسرا ہائی پروفائل حملہ ہے۔ نومبر 2018 میں بی ایل اے نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا تھا اور مئی 2019 میں بی ایل اے نے گوادر میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ کیا تھا۔ یہ تمام حملے بشیر زیب کی سربراہی میں کیے گئے ہیں جنہوں نے افغانستان میں آئی ایس آئی کے حملے میں بی ایل اے کے سابق چیف اسلم بلوچ کے شہید ہونے کے بعد بلوچ لبریشن آرمی کی باگ ڈور سنبھالی۔

ویویک سنہا
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے 29 جون کو کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا۔ اس حملے کا بنیادی مقصد کیا تھا؟

بشیر زیب


بی ایل اے کا ہر حملہ خواہ وہ چھوٹے نوعیت کو ہو یا شدید نوعیت کا، اسکا بنیادی بلوچ سرزمین پر غیرقانونی طور پر طاقت کے زور پر قابض دشمن کے قبضے کو کمزور کرنا اور بلوچ قومی آزادی کی جانب بڑھنا ہے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ اپنے تئیں یہی بنیادی مقصد لیئے ساتھ ساتھ دشمن کے معیشیت کے ایک ایسے ستون و علامت کو نشانہ بنانا تھا، جو بلوچ قوم کے معاشی استحصال و لوٹ مار پر قائم ہے۔ اسکے علاوہ ہم اس حملے کے توسط سے دنیا تک یہ پیغام بھی پہنچانا چاہتے تھے کہ پاکستان بلوچ وطن پر قابض ہے اور ہمارے وسائل لوٹ رہا ہے اور اسے چین ( جو اسٹاک ایکسچینج کے چالیس فیصد حصص کا مالک ہے) کی مکمل سفارتی، معاشی و عسکری مدد حاصل ہے۔ بلوچ نا اس قبضے کو قبول کریں گے اور نا ہی چین و پاکستان کی گٹھ جوڑ سے جاری بلوچ وسائل کے لوٹ مار کو قبول کریں گے۔

ویویک سنہا
کراچی پولیس حکام نے نیوز انٹروینشن کو بتایا تھا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں بی ایل اے کے خودکش حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن کراچی اسٹاک ایکسچینج اگلے دن سے فعال رہا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ بی ایل اے نے حملے کا مقصد حاصل کیا ہے؟

بشیر زیب


بی ایل اے مجید بریگیڈ کے اس حملے کا مقصد قتل و غارت نہیں تھا، مارے گئے لوگوں کی اصل تعداد پاکستانی حکام کبھی ظاہر نہیں کرے گی اور نا ہی ہمیں تعداد سے لینا دینا ہے۔ ہم اپنی کامیابی ہلاکتوں کی تعداد کے ترازو میں نہیں تولتے بلکہ اس آئینے میں دیکھتے ہیں کہ بڑے مقصد کے تناظر میں ہم کتنا آگے بڑھے، دنیا تک ہماری بات کس حد تک پہنچی اور دشمن پر اسکے دور رس اثرات کتنا مرتب ہونگے۔ بلوچ فدائین پاکستان کے ایک حساس مقام پر پہنچ کر معاشی اعتبار سے اتنے اہم عمارت کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ایک جانب اس امر کا اظہار ہے کہ بلوچ دشمن کو کہیں بھی نشانہ بناسکتے ہیں اور دوسری جانب آنے والے کئی سالوں تک کوئی بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے پہلے اس حملے کو لیکر اپنے سرمائے کے تحفظ کے بارے میں سوچے گا، یہی ہماری کامیابی ہے اور اس کامیابی کے تناظر میں ہم اسٹاک ایکسچینج حملے کو ایک انتہائی کامیاب حملہ سمجھتے ہیں۔

ویویک سنہا
مجید بریگیڈ کے چاروں حملہ آوروں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کو کم سے کم رکھنے کی پوری کوشش کریں گے اور اس کے باوجود کراچی حملے کے دوران 30 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ بی ایل اے اپنے حملوں کا جواز کیسے پیش کرسکتا ہے؟

بشیر زیب


بلوچ نے اس جنگ کا آغاز نہیں کیا ہے بلکہ ہم اپنا دفاع کررہے ہیں۔ ہم ایک پرامن قوم ہیں، ہم نے اس تشدد کا آغاز نہیں کیا بلکہ ہمارا تشدد، جوابی تشدد ہے۔ ہم وہ جنگ لڑ رہے ہیں جو ہمارے مرضی کیخلاف ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ اب اس جنگ کے خاتمے اور دائمی آزادی و امن کیلئے ہمیں لڑنا پڑرہا ہے۔ انسانوں کو درپیش تمام لعنتوں میں سے بدترین لعنت جنگ کی لعنت ہے۔ آپ نے اسکا آغاز کیا ہوا ہو، یا آپ محض اپنے دفاع کیلئے لڑرہے ہیں اس میں جانیں جاتی ہیں، بچے یتیم ہوتے ہیں، گھر اجڑتے ہیں۔ جنگ سے یہی توقع کی جاتی ہے۔
اس لیئے پوری دنیا کو اکھٹے ہوکر پاکستان جیسے کرداروں کی سرزنش کرکے انہیں روکنا ہوگا جو جنگوں کا آغاز کررہے ہیں، جو بلوچ جیسے مظلوم قوموں پر جنگ مسلط کررہے ہیں۔ مظلوموں سے دفاع کا حق چھیننے کے بجائے، ظالموں کے ہاتھ روکنے ہونگے۔ ضرور کراچی اسٹاک ایکسچینج سمیت بی ایل اے کے دوسرے حملوں میں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں لیکن یہ جانیں کس کی ہوتی ہیں؟ ان باوردی اہلکاروں یا اس ریاست کے قبضے کو دوام پہنچانے والوں کی جنہوں نے اس جنگ کو بلوچ پر مسلط کیا اور بی ایل اے یا بلوچ نے اپنے دفاع و آزادی کی خاطر انہیں نشانہ بنایا۔ مجید بریگیڈ کی کاروائیاں ہوں یا بی ایل اے کی دو دہائیوں پر مبنی حملے سب کا تقابل دنیا کے تمام جنگوں یا گوریلہ تحاریک سے کی جائے تو یہ آپکو واضح طور پر نظر آئے گا کہ بی ایل اے کے حملوں میں معصوم انسانوں کے جانوں کا نقصان نا ہونے کے برابر ہے۔

ویویک سنہا
میڈیا کے متعدد گروپ بی ایل اے کے انقلابیوں کو “دہشت گرد” کہتے ہیں۔ آپکی رائے؟

بشیر زیب


کون دہشتگرد ہے؟ یہ تشریح کرنے والے کے موضوعی نقطہ نظر پر منحصر ہوتا ہے، ایک کا انقلابی دوسرے کا دہشتگرد ہوتا ہے۔ اگر بنیادی فرق پر آکر دیکھیں تو ایک فریڈم فائٹر مجبوراً ایک محدود جوابی تشدد استعمال کرتا ہے اور جو تشدد کا آغاز کرے اور بلا امتیاز استعمال کرے وہ دہشتگرد ہے۔ اس تناظر میں آپ دیکھیں بی ایل اے یا دوسرے بلوچ آزادی پسند مسلح جماعتیں بلوچستان پر پاکستانی قبضے اور فوج کشی کے جواب میں تشدد کا استعمال کررہے ہیں اور اسکا ہدف بلاامتیاز نہیں بلکہ ہدف محدود اور تعین شدہ ہے جو پاکستان کی فوج، عسکری و استحصالی تنصیبات اور اس قبضے کو استحکام بخشنے والے آلہ کار ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دیکھیں بلوچستان پر حملہ کرکے پاکستان نے اس تشدد کا آغاز کیا اور اب روزانہ کے بنیاد پر عام بلوچ آبادیوں پر بلا امتیاز بمباری و آپریشن ہورہے ہیں۔ تو دہشتگرد کون ہوا؟

ویویک سنہا
بی ایل اے جنوبی ایشیاءکے دوسرے مسلح گروہوں سے کس طرح مختلف ہے؟

بشیر زیب


جنوبی ایشیاءمیں بہت سے تحاریک جاری ہیں اور متعدد مسلح تنظیمیں و گروہ متحرک ہیں بی ایل اے کے علاوہ تمام کو محض ایک خانے میں ڈال کر تقابل نہیں کی جاسکتی۔ ان میں سے چند ایک سے شاید بی ایل اے مماثلت رکھتا ہو جیسے کہ سندھیوں کی آزادی کی تحریک یا دوسرے خود رو و جائز آزادی کی عوامی کی تحریکیں ہیں۔ انکے علاوہ یا تو ہمیں مذہبی شدت پسند مسلح تنظیمیں ملتی ہیں یا پھر ایسے مسلح پراکسی گروہ جو خودرو و عوامی تحریکوں کا نتیجہ نہیں بلکہ جن کی تشکیل بطور پراکسی کسی ملک میں عدم استحکام کی خاطر ہوئی ہے۔ آخر الذکر دونوں طرح کے گروہوں سے بی ایل اے یکسر مختلف و منفرد ہے۔ اول یہ کہ بی ایل اے مذہبی شدت پسندوں کے برعکس اپنے نظریات طاقت کے زور پر نہیں تھونپ رہی اور نا دہشت پھیلانے کی خاطر عام لوگوں کو نشانہ بناتی ہے بلکہ بی ایل اے اپنے وطن کا دفاع کررہا ہے اور ایک آزاد و سیکولر بلوچستان کیلئے جدوجہد کررہی ہے جہاں تمام نظریات، مذاہب و مکاتبِ فکر کے لوگ مکمل آزادی کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔ اور پراکسی گروہوں کے برعکس بی ایل اے ایک عوامی تحریک کا نتیجہ ہے اور مکمل سیاسی و خودرو ہے اور ایک طویل تاریخی تسلسل و اپنے زمین و اپنے لوگوں میں گہری جڑیں رکھتا ہے اور کوئی بیرون طاقت نہیں بلکہ بلوچ و بلوچستان ہی بی ایل اے کے طاقت کا سرچشمہ ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں