متنازعہ بل کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان میں جاری احتجاجی تحریکوں میں شدّت

0
88

گلگت بلتستان کو پاکستان سے ملانے کا واحد راستہ کے کے ایچ روڈ ہے جو دیامر اور کوہستان سے ہو کر گزرتا ہے، دس برس قبل چلاس اور کوہستان کے مقام پر راولپنڈی سے پاکستانی زیر قبضہ گلگت بلتستان جانے والی بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر شیعہ مسافروں کو اتارا گیا تھا اور انہیں سرعام بے دردی سے گولیوں سے بھنا گیا تھا اور اس سفاکانہ کاروائی کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل بھی کی گئی تھی اج تک ان دہشتگردوں کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا گیا اور نہ اب تک ان دہشت گردوں کو پکڑا گیا۔
پاکستانی زیر قبضہ گلگت بلتستان میں مذہبی فسادات کی تاریخ کافی طویل ہے اور اب تک گاہے بگاہے اس میں شدت اتی رہتی ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان کے سب سے بڑے شہر اسکردو میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جب کہ یادگار شہداء پر ایک بڑا جلسہ منقعد کیا گیا۔ جس میں مقررین نے حکومت سے متنازع بل فوری طور پر واپس لینے اور معاملات فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب گلگت، چلاس اور دیامیر میں احتجاج میں شرکا نے مرکزی حکومت سے قیامِ امن کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ اگست کے اوائل میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں توہینِ صحابہ ترمیمی بل پیش ہونے کے بعد گلگت بلتستان میں مذہبی گروہوں کے درمیان اختلافات شروع ہوئے تھے۔ احتجاج اور مظاہروں کے بعد اہلِ تشیع اور اہلِ سنت دونوں فرقوں کے مذہبی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کا سلسلہ جاری ہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق چلاس میں مشتعل مظاہرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولوی فرمان ولی نے شیعہ عوام کو کھلے عام قتل کرنے کی اور ان کی جان و مال کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی اور بعد اذاں ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی گئی۔
مذکورہ ویڈیو میں مولوی فرمان ولی نے علامہ سید باقر الحسینی نائب خطیب جمعہ سکردو پر توہین صحابہ کا جھوٹا الزام عائد کرتے ہوئے پولیس سے فوری مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور ایف ائی ار کے عدم اندراج کی صورت میں شیعوں کو شاہرہ قراقرم پہ چلاس کے مقام پر ماضی کی قتل و غارت گری کی یاد دلاتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی تھی۔
دیامر کے علماء کی تقاریر اور دھمکیوں کے بعد احتجاج کا دائرہ کار پورے گلگت بلتستان میں پھیل گیا مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال اور ہر جگہ روڈ بلاک اور احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری نے قاضی نثار کی طرف سے امام مہدی کی شان میں گستاخی کی شدید مذمت کرتے ہوئے قاضی نثار کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ امام زمانہ کی شان اقدس میں ناقابل معافی گستاخی کی ہے حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس فتنے کو فی الفور گرفتار کر کے نشان عبرت بنائے تاکہ ائندہ کسی کو مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے بارے میں گستاخی کی جرات نہ ہو۔
احتجاجی دھرنے سے تقریر کرتے ہوئے سکردو جیل گھڑ چوک پہ ایک مقامی عالم نے کہاں کہ جہاں شیعوں کی زندگی محفوظ نہیں تو ہم سے بھی کوئی خیر کی توقع نہ کی جائے یہ سب کچھ حکومت پاکستان کی ایماں پر ہو رہا ہے متنازعہ خطے میں حکومت پاکستان اگر ہماری جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتی تو ہمیں پاکستان آنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہمارے تاریخی راستے اور کرگل روڈ کھولا جائے۔
گلگت بلتستان بھر کی طرح گلگت شہر میں بھی حالات کشیدہ سے کشیدہ تر ہو گئے اور اسی تناظر میں گلگت بلتستان بھر میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رہا انٹرنیٹ سروس بند جس کے بعد امن و امان کی صورتحال کو قابو کرنے کے لیے فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اور اس وقت گلگت بلتستان فوج کے زیر اثر ہے۔
گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کے بڑے شہروں میں سکاؤٹس رینجرز اور ایف سی تعینات کی گئی ہے جبکہ دفعہ 144 بی نافذ کر دی گئی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں