سرکاری سکولوں کی نجکاری کیخلاف اساتذہ کا احتجاج جاری، تعلیمی سرگرمیاں معطل

0
97

پاکستان کے صوبہ پنجاب بھر میں اساتذہ سرکاری سکولوں کی نجکاری اور پنشن کے ضوابط تبدیل کرنے کے فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ احتجاج کا یہ سلسلہ 8ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ اساتذہ نے تعلیمی بائیکاٹ جاری رکھا ہے۔ مطالبات کی منظوری اور گرفتار اساتذہ کو رہا کئے جانے تک تعلیمی بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے تعلیمی بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کرنے کے علاوہ انضباطی کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔نگران حکومت نے اساتذہ کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔ تاہم اساتذہ نے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

ہڑتال کے باعث سرکاری سکولوں میں حاضری 20فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کی نجکاری کا منصوبہ ترک کیا جائے۔ 1ہزار سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ لیو انکیشمنٹ، گریجویٹی اور پنشن کے قوانین میں کی گئی تبدیلی فوری واپس لی جائے۔ اساتذہ نے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ اظہار میں بھی احتجاج اور ہڑتال کر رکھی ہے۔

حکومت ان ایک ہزار سرکاری سکولوں کو ایک غیر سرکاری تنظیم ’مسلم ہینڈز پاکستان‘ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس کے بعد بتدریج پنجاب سمیت ملک بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کو نجکاری کا عمل اسی روایت پر ہی کئے جانے کا ارادہ ہے۔

ٹیچرز یونین کا کہنا ہے کہ حکومت ان سکولوں کی نجکاری کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے بہترین انفراسٹرکچر والے سکولوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

ٹیچر یونین کے رہنما رانا لیاقت نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ سرکوں سکولوں کی نجکاری سے تعلیم کا معیار متاثر ہوگا اور غریب طلبہ سستی تعلیم کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ سرکاری سکول مفت داخلے فراہم کررہے ہیں، جبکہ این جی اوز فیس وصول کریں گی۔ سرکاری سکولوں میں اس وقت اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔ نئی بھرتیاں کر کے یہ مسئلہ حل کیا جائے۔

انکا کہنا ہے کہ حکومت پرائیویٹائزڈ سکولوں کے اساتذہ کو دوسرے سکولوں میں ٹرانسفر کر رہی ہے اور انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی پیش کش کر رہی ہے، جس سے اساتذہ کے حوصلے پست ہونگے اور ان کی کارکردگی متاثر ہو گی۔ گزشتہ حکومت نے بھی کچھ سکول این جی اوز کے حوالے کئے گئے لیکن وہ منصوبے ناکام ہو گئے اور پرائیویٹ ادارے سکولوں کا انتظام نہیں چلا سکے تھے۔

انکا کہنا تھا کہ حکومت ناقص انفراسٹرکچر والے سکول این جی اوز کے حوالے کیوں نہیں کرتی، تاکہ وہ انہیں تعمیر کر سکیں اور بہتر کر سکیں۔ حکومت صرف اچھے سکول فروخت کر کے تعلیم کے سرکاری نظام کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

یادرہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ نے 10ستمبر کو مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے کے بعد صوبے کے ایک ہزار سرکاری سکولوں کو مسلم ہینڈز پاکستان کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔

محکمہ سکول ایجوکیشن کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’ڈان‘ کو بتایا کہ حکومت مستقبل میں مزید سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پرائیویٹ کئے گئے اسکولوں کے اساتذہ کو دوسرے سکولوں میں ٹرانسفر کر دیا جائے گا اور انہیں ریٹائرمنٹ پر خصوصی مراعات بھی دی جائیں گی۔
یاد رہے کہ حکومت سکولوں کے تمام متعلقہ اثاثے نجی ادارے کے حوالے کر دے گی، جن میں صوبے بھر کے شہروں اور مرکز میں اربوں روپے کی مہنگی زمین، بڑی عمارتیں، کھیل کے میدان اور لیبارٹریز شامل ہیں۔ عوامی فنڈز کی بنیاد پر اس انفراسٹرکچر کی تعمیر میں کئی دہائیاں لگی ہوئی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں