دنیا کی شاید ہی کوئی فوج ہو گی جو کرپشن،بد عنوانی میں پاکستانی فوج سے بازی لے جائے، پاکستانی فوج نے ہمیشہ سے کرپشن اور اپنی مفادات کی خاطر بسے دیگر اقوام کو بزور طاقت اپنا غلام بنایا ہے۔
باز اوقات تو یہ فوج خود ڈمی تنظیموں کو بھی بناتی رہی ہے تاکہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج سیکورٹی کے نام پر غضب کر سکے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہی۔
پاکستانی فوج کی کرپشن کا جائزہ لیتے ہیں۔
فوج ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺎﺋﻞ نے ﻟﮍ ﮐﺮ کشمیر ﮐﻮ آزاد ﮐرالیا۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ (1971)۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﮔﻞ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﭼﻦ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔
فوج تھی اور مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرلیا اور جرنیل یہاں سینيٹ چیئرمین کا الیکشن مینيج کرتے رہے۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮیکی فوجیﮔﮭﺲ ﮐﮯ ﺍﺳﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﻻﺩﻥ ﮐﻮ مار ﮐﺮ اٹھا لے گیا اور یہ سوتے رہ گئے۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭیمنڈ ﮈيئوﺱ کو ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ بھجوا دیا ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ بيشمار ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﻗﺘﻞ ﮐﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻓﻮﺝ ﺗہى ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﻞ ﺟﻮﺯﻑ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔
ﻓﻮﺝ تهى ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻓﯿﮧ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﻮ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ کو ﺑﯿﭽﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺘﮕﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ 1 ﻻﮐﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩھ ﻋﻮﺍﻡ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍؤ ﺍﻧﻮﺭ ﻧﮯ 444 ﭘﺨﺘﻮﻧﻮں ﮐﻮ ﺟﻌﻠﯽ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭ ﺩﺋﮯ
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻭﯾﺰ ﻣﺸﺮﻑ ﻧﮯ 4000 ﮨﺰﺍﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯿﻮں ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ديئے
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ APS اﺳﮑﻮﻝ ﭘﺮ انکی سخت سیکورٹی تھی ﻣﮕﺮ 150 ﺑﭽﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﮮ ﮔﺌﮯ۔
ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ بین الاقوامی حدود کی کہلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ﻗﺒﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﮈﺭﻭﻥ ﺳﮯ میزائل ﺑﺮﺳﺎتا رہا بيگناھ شہريوں کو مارا۔!
ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﮈﺍﻟﺮﻭں ﮐﮯ ﻋﻮﺽ غیرت مند ﻗﺒﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﺩﺭﺑﺪﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭں ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺭﮐﯿﭩﻮں ﮐﻮ ملیاﻣﯿﭧ ﮐﺮ ﺩیا
ﻓﻮﺝ نے ﺩھﺸﺖ ﮔﺮﺩ بنائے اور ان کی ملک دشمن ﭘﺎﻟﺴﯿﻮں ﮐﯽ ﻭﺟﮧ سے ﭘﺎﮐﺴﺘﺎنی ﻣﻌﯿﺸﺖ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا لیکن جرنیل ارب پتی بن گئے اور تاحال ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی طرف سے صرف گزشتہ دہائی میں دی گئی 33 ارب ڈالرز یا قریبآ ساٹھ کھرب روپے کی فوجی امداد کا حساب مانگ رھا ھے۔
ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﺩھﺸﺖ ﮔﺮﺩ نواز ﭘﺎﻟﺴﯿﻮں ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﮮ ھﻤﺴﺎﯾﮧ ﻣﻤﺎﻟﮏ کے ﺴﺎﺗﮫ ھمارے ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﺧﺮﺍﺏ ھیں
ﻓﻮﺝ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﺤﺖ ﺍﺩﺍﺭﻭں ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ KPK – FATA ﮐﮯ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﻻشیں ملیں ﯾﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪھ ﻻﭘﺘﮧ ھﮯ۔
ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﻣﺪﺍﺧﻠﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﻠﮏ کى ﻋﺪﻟﯿﮧ، ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺻﺮﻑ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺭھ ﮔﺌﮯ ھیں ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ
ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ھﮯ ﮐﮧ ﻓﻮﺝ نہ ﺭﮨﯽ ﺗﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭھے ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﮭﺘﺮﻭﻝ ﺯﯾﺘﻮﻥ ﮐﮯ ﺗﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﺘﺮ ﺑﮭﮕﻮ ﮐﺮ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﺳﮯ ﺑﻮﭦ ﭘﺎﻟﺸﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﮍﺍ ﺑﺎﮨﺮ آجائے
نوٹ: اس وقت ملک کے وزیراعظم کی تنخواھ 2 لاکھ روپئے
اور اس کے اسسٹنٹ عاصم باجوھ کی تنخواھ 45 لاکھ روپئے
جبکہ عاصم باجوھ کے مشیر کی تنخواہ 15لاکھ روپئے ھے
جرنیلوں کو نوازنے کے لیئے نئے نئے عہدے تخلیق کئے جا رھے ہیں۔ آپ نے آج تک ڈی جی ریلوے کا عہدہ نہیں دیکھا ہوگا لیکن آج وہ بھی بنا دیا گیا اور ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو تعینات بھی کردیا گیا یقینآ اسکی تنخواہ شیخ رشید سے زیادھ ہوگی۔ آج تقریباً ہر بڑی اور اتھارٹی والی سول پوسٹ پر کوئی فوجی افسر براجمان ھے۔ یہ جرنیل سارا بجٹ ھڑپ کرکے آڈٹ کروانا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ کیوں؟!؟
لیکن یہاں 70سال سے قوم کو جھوٹ یہ پڑھایا گیا کہ سیاستدان ملک کھا گئے۔۔۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے درست کہا تھا کہ جس دن جرنیلوں کی کرپشن بے نقاب ہو گئی یہ بےاختیار سیاستدان بیچارے آپ کو فرشتے لگیں گےویسے کوئی
1955ءمیں کوٹڑی بیراج کی تکمیل کے بعد گورنرجنرل غلام محمد نے آبپاشی سکیم شروع کی۔ 4 لاکھ مقامی افراد
میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے گئے:
1:جنرل ایوب خان۔۔500ایکڑ
2:کرنل ضیااللّه۔۔500ایکڑ
3:کرنل نورالہی۔۔500ایکڑ
4:کرنل اخترحفیظ۔۔500ایکڑ
5:کیپٹن فیروزخان۔۔243ایکڑ
6:میجرعامر۔۔243ایکڑ
7:میجرایوب احمد۔۔500ایکڑ
8:صبح صادق۔۔400ایکڑ
صبح صادق چیف سیکرٹری بھی رھے۔
1962ع میں دریائے سندھ پر کشمورکے قریب گڈو بیراج کی تعمیر مکمل ہوئی۔
اس سےسیرآب ہونے والی زمینیں جن کاریٹ اسوقت 5000-10000 روپئے ایکڑ تھا۔عسکری حکام نے صرف 500 روپئے ایکڑ کے حساب سے خریدا۔
گڈو بیراج کی زمین اس طرح بٹی:
1:جنرل ایوب خان۔۔247ایکڑ
2:جنرل موسی خان۔۔250ایکڑ
3:جنرل امراؤ خان۔۔246ایکڑ
4:بریگیڈئر سید انور۔۔246ایکڑ
دیگر کئ افسران کو بھی نوازا گیا۔
ایوب خان کےعہدُ میں ہی مختلف شخصیات کو مختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی۔ انکی تفصیل یوں ہے:
1:ملک خدا بخش بچہ
وزیر زراعت۔۔158ایکڑ
2:خان غلام سرور خان،
وزیرمال۔۔240ایکڑ
3:جنرل حبیب اللّه،
وزیرداخلہ۔۔240ایکڑ
4:این-ایم-عقیلی
وزیرخزانہ۔۔249ایکڑ
5:بیگم عقیلی۔۔251ایکڑ
6:اخترحسین
گورنر مغربی پاکستان۔۔150ایکڑ
7:ایم-ایم-احمد مشیراقتصادیات۔۔150ایکڑ
8:سیدحسن
ڈپٹی چیرمین پلاننگ۔۔150ایکڑ
9:نوراللّه ریلوے انجیئر۔۔150ایکڑ
10:این-اے-قریشی
چیرمین ریلوے بورڈ۔۔150ایکڑ
11:امیرمحمد خان
سیکرٹری صحت۔۔238ایکڑ
12:ایس-ایم-شریف
سیکرٹری تعلیم۔۔239ایکڑ
جن جنرلوں کوزمین الاٹ ہوئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:جنرل کے-ایم-شیخ۔۔150ایکڑ
2:میجر جنرل اکبرخان۔۔240ایکڑ
3:برگیڈیر ایف-آر-کلو۔۔240ایکڑ
4:جنرل گل حسن خان۔۔150ایکڑ
گوھر ایوب کے سسر جنرل حبیب اللّه کو ہربیراج پر وسیع قطعۂ اراضی الاٹ ہوا۔
جنرل حبیب اللّه گندھارا کرپشن سکینڈل کے اہم کردار تھے۔
جنرل ایوب نے جن ججزکو زمین الاٹ کی گئ:
1:جسٹس ایس-اے-رحمان 150ایکڑ
2:جسٹس انعام اللّه خان۔۔240ایکڑ
3:جسٹس محمد داؤد۔۔240ایکڑ
4:جسٹس فیض اللّه خان۔۔240ایکڑ
5:جسٹس محمد منیر۔۔150ایکڑ
جسٹس منیرکوا ٹھارھ ہزاری بیراج پر بھی زمین الاٹ کی گئی۔ اور اسکے علاوھ بهى ان پر مزيد نوازشات رھیں۔
ایوب خان نے جن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:
1:ملک عطامحمد خان ڈی-آئی-جی 150ایکڑ
2:نجف خان ڈی-آئی-جی۔۔240ایکڑ
3:اللّه نواز ترین۔۔240ایکڑ
نجف خان لیاقت علی قتل کیس کے اهم کردار تھے۔ قاتل سید اکبرکو گولی انہوں نے ماری تھی۔
اللّه نواز فاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتے رھے۔
1982ع میں حکومت پاکستان نے کیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔اسکا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑ بکریاں پالنے کیلئے زمین الاٹ کرنی تھی۔ مگر اس سکیم میں گورنرسندھ جنرل صادق عباسی نے سندھ کے جنگلات کی قیمتی زمین 240 روپے ایکڑ کے حساب سے مفت بانٹی۔
اس عرصےمیں فوج نے کوٹڑی، سیھون، ٹھٹھہ، مکلی میں 25 لاکھ ایکڑ زمین خریدی۔
1993ع میں حکومت نے بہاولپور میں 33866 ایکڑ زمین فوج کے حوالے کی۔
جون 2015 میں حکومت سندھ نے جنگلات کی 9600 ایکڑ قیمتی زمین فوج کے حوالے کی۔ 24 جون 2009 کو ریونیو بورڈ پنجاب کی رپورٹ کے مطابق %62 لیزکی زمین صرف 56 اعلی عسکری افسران میں بانٹی گئی۔ جبکہ انکا حصہ صرف %10 تھا۔ شاید یہ خبرکہیں شائع نہیں ہوئی۔
2003 میں تحصیل صادق آباد کے علاقے نوازآباد کی 2500ایکڑ زمین فوج کے حوالے کی گئی۔ یہ زمین مقامی مالکان کی مرضی کے بغیر دی گئی۔ جس پر سپریم کورٹ میں مقدمہ بھی ہوا۔
اسی طرح پاک نیوی نے کیماڑی ٹاؤن میں واقع مبارک گاؤں کی زمین پر ٹریننگ کیمپ کے نام پرحاصل کی۔ اور اس کا کیس چلتا رہا۔ اب یہ نیول کینٹ کا حصہ ہے۔
2003 میں اوکاڑہ فارم کیس شروع ہوا۔
اوکاڑہ فارم کی16627ایکڑ زمین حکومت پنجاب کی ملکیت تھی۔ یہ لیزکی جگہ تھی۔1947میں لیزختم ہوئی۔ حکومت پنجاب نے اسے کاشتکاروں میں زرعی مقاصد سے تقسیم کیا۔ 2003 میں اس پرفوج نے اپنا حق ظاھر کیا۔
اسوقت کے ڈی۔جی ISPR شوکت سلطان کے بقول فوج اپنی ضروریات کیلئے جگہ لے سکتی ہے۔
2003 میں سینیٹ میں رپورٹ پیش کی گئی۔ جسکے مطابق فوج ملک ميں 27 ہاؤسنگ سکیمز چلارہی ہے۔
اسی عرصے میں 16 ایکڑ کے 130پلاٹ افسران میں تقسیم کئے گئے۔
فوج کے پاس موجودھ زمین کی تفصیل:
لاھور۔۔12ہزارایکڑ
کراچی۔۔12ہزارایکڑ
اٹک۔۔3000ایکڑ
ٹیکسلا۔۔2500ایکڑ
پشاور۔۔4000ایکڑ
کوئٹہ۔۔2500ایکڑ
اسکی قیمت 300 بلین روپے ہے۔
2009 میں قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا۔
بہاولپور میں سرحدی علاقےکی زمین 380 روپے ایکڑ کے حساب سے جنرلز میں تقسیم کی گئی۔ جنرل سے لیکرکرنل صاحبان تک کل 100 افسران تھے۔
چند نام یہ ہیں:
پرویزمشرف، جنرل زبیر، جنرل ارشادحسین، جنرل ضرار، جنرل زوالفقارعلی، جنرل سلیم حیدر، جنرل خالدمقبول، ایڈمرل منصورالحق۔
مختلف اعداد ؤ شمار کے مطابق فوج کے پاس ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ زمین ہے۔ جو ملک کے کل رقبے کا %12 ہے۔
ستر لاکھ ایکڑ کی قیمت 700 ارب روپئے ہے۔
ایک لاکھ ایکڑ کمرشل مقاصد کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ جسکو کئی ادارے جن میں فوجی فاؤنڈیشن، بحریہ فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئرٹرسٹ استعمال کر رھے ہیں۔
نیز بےنظیر بھٹو نے بیک جنبشِ قلم جنرل وحید کاکڑ کو انعام کے طور پر 100مربع زمین الاٹ کی تھی۔
اس کے علاوھ برگیڈیئر و جرنیل سمیت سبھی آرمی آفیسرز ریٹائرمنٹ کے قریب کچھ زمینیں اور پلاٹ اپنا حق سمجھ کر الاٹ کرا لیتے ھیں۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں ریٹائر ھونے والے جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بننے کے بعد لاھور کینٹ میں 868 کنال کا نہایت قیمتی قطعہ زمین الاٹ کرانے کے علاؤھ بیدیاں روڈ لاھور پر بارڈر کے ساتھ 90 ایکڑ اراضی اور چند دیگر پلاٹ بھی (شاید کشمیر آزاد کرانے کے صلہ میں یا پھر دھرنے کرانے کے عوض) الاٹ کروائے جن کی مالیت اربوں میں بنتی ھے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی چند مرلے کے پلاٹ کے لئے ساری زندگی ترستا رھتا ھے کیا یہ نوازشات و مراعات یا قانونی اور حلال کرپشن ھے یا اس جرنیلی مافیا کی بے پناھ لالچ و حرص ؤ حوس؟ کیا عوام کو اسکے خلاف آواز اٹھا کر اس حلال کرپشن کو روکنے کی کوشش نہیں کرنا چاھیئے!
سابقہ پاکستان آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی کرپشن اور اثاثو کی مالیت کی لسٹ
آسٹریلیا میں ایک بڑہ جزیرہ جس کی مالیت 1600 ارب روپے ہے
آسٹریلیا میں زرعی زمین ہے جس کی مالیت 90 ارب روپے ہے
آمریکا میں ہر ایک بچے کے پاس بنگلا ہے جس کی مالیت 48 ارب روپے ہے
سندھ کے شہر کراچی میں ڈی ایچھ ای میں 9 کمرشل پلازہ , 4 پیٹرول پمپ ، 139 پلاٹس ہیں جن کی مالیت تقریباً 300 ارب روپے ہے
لاہور ڈی ایچھ ای میں 9 کمرشل پلازے , 16 بنگلے ، 1 پیٹرول پمپ ، 44 پلاٹس ہے جس کی مالیت تقریباً 283 ارب روپے ہے
ڈی ایچھ ای اسلام آباد میں 6 بنگلے ، 11 پلاٹس , 43 کمرشل پلاٹس ہے جن کی مالیت 156 روپے ارب ہے
روات میں جی ٹی روڈ پر 32000 کنال رقبہ زمین ہے جس کی مالیت 55 ارب روپے ہے
گوادر آئل سٹی کے ساتھ 10000 کنال رقبہ زمین ہے جس کی مالیت 28 ارب روپے ہے
نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کارگو روڈ کے ساتھ 5300 کنال رقبہ زمین ہے جس کی مالیت 21 ارب روپے ہے
دبئی میں تقریباً 63 ولاز ہے جس کی مالیت تقریباً 95 ارب روپے ہے
بہاولپور احمد پورہ شرفیہ کے ساتھ 299 زرعی زمین ہے جس کی مالیت 8 ارب روپے ہے
یہ ایک ریٹائر فوجی جرنل کی کرپشن سے کمائی ہوئے اثاثوں کی لسٹ ہے ، آپ اندازہ کریں کے پاکستانی فوج کے باقی ریٹائر جرنیلوں نے کٹنی کرپشن کی ہوگی
ان جرنیلوں سے پوچھے بھلا یہ تمغےکشمیر آزاد کرانے کے ھیں یا پاکستان کو فتح کرنے کے؟