حبیب الرحمن صاحب جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی سے2002 سے جڑئے ہیں،وہ پارٹی کے سابق مرکزی ترجمان اور سیکریٹری نشرواشاعت رہ چکے ہیں۔موجودہ وقت میں پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر ہیں۔حبیب صاحب نے طلباء سیاست جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔
جے کے پی این پی پاکستان سے پی او کے اور گلگت بلتستان کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔جے کے پی این پی کی مرکزی کمیٹی کے ممبر حبیب الرحمان نے نیوز انٹرو ینشن کے چیف ایڈیٹر وویک سنہا اور سنگر میڈیا کے چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ سے آزاد کشمیر” اور گلگت بلتستان پر پاکستان کے غیرقانونی قبضے کے بارے میں بات کی۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کب قائم ہوئی؟کیااس کی بیانیہ سے پاکستانی سرکار کو اعتراض ہے؟
حبیب الرحمن
جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی اپریل 1985 کو قائم ہوئی اس سے قبل پاکستان کے زیرِ قبضہ نام نہاد آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستانی مسلط کردہ بیانیہ حاوی تھا کہ ریاست کے یہ علاقے آزاد ہیں اور وادی یعنی سرینگر کی مسلم آبادی کو آزاد کروانا باقی ہے دوسرے لفظوں میں پاکستانی ریاست اپنی قبضہ گیری کو مزید مستحکم رکھنے کے لیے تاریخ مسخ کر کے اپنی ہوس ملک گیری کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی کوشش اور نام نہاد آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان کو محاصرے میں رکھ کر تمام سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی جکڑ بندی میں رکھا ہوا تھا جو اب بھی ہے۔ ایسے جبر کے ماحول میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی نے آزادی اور غلامی کے درمیان فرق کو واضح کر کے اعلان کیا کہ اے۔ جے۔ کے اور GB پاکستان کے قبضے میں ہیں اور یہ علاقے بھی اسی طرح غلام ہیں جس طرح ریاست کے دوسرے حصے غلام ہیں۔ ایک غلام دوسرے غلام کو آزاد نہیں کروا سکتا جب تک وہ اپنی زنجیر نہیں توڑتا۔ لہذٰا نام نہاد آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو اپنی حقیقی اور سچی آزادی کے لیے پاکستان کے قبضے کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔ اس بیانیے نے قابض حکمرانوں کو خوفزدہ کر دیا۔ پارٹی کے اس بیانیے کو ظاہر ہے قابض ریاست پاکستان نے برادشت نہیں کرنا تھا تو انھوں نے اپنے مقامی ایجنٹوں اور خفیہ اداروں کے ذریعے خوف،دھمکیوں، الزامات سمیت تمام حربے استعمال کیے تا کہ یہ حقیقی سوالات نہ اٹھائے جا سکیں۔ پارٹی کا یہ بیانیہ واضح طور پر پاکستانی قبضہ کو چیلنج ہے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر میں اس وقت حالات کیسے ہیں؟
حبیب الرحمن
آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان مکمل طور پر قبضہ گیری کا شکار ہیں۔ اور مقبوضہ لوگوں کی زندگیاں ہمیشہ بربادیوں کا شکار ہوتی ہیں۔ قابض ہر وہ قدم اٹھاتا ہے جس سے لوگ زیادہ سے زیادہ بے بسی کا شکار ہو جائیں۔ اے جے کے اور جی بی کا سماجی، معاشی، ثقافتی ڈھانچہ مکمل طور پہ ختم کر دیا گیا ہے۔ تہذیب، ثقافت، زبان اور دوسری روایات کو مکمل طور پہ تباہ کرنے کے لیے جعلی اور مسخ شدہ نظریات مذہب کے نام پہ مسلط کر دیے گے ہیں۔ جس نے نفسیاتی محرومی کو جنم دیا ہے۔ آزادی اور الگ ریاست کے لیے آواز بلند کرنے والوں پہ پابندیاں ہیں۔ تاریخ کی تمام کتابیں پڑھنے پہ پابندی ہے۔ ہر شخص سے پاکستان میں شامل ہونے کا حلف لیا جاتا ہے۔
تمام وسائل براہ راست اسلام آباد کے کنٹرول میں ہیں، بجلی پیدا کرنے والے چھوٹے بڑے منصوبوں پہ آزاد جموں کشمیر، جی بی نہیں بلکہ پاکستان کے قبضہ میں ہیں اور تمام پیداوار ان کے تصرف میں ہے عوام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
عملی طور پہ اے جے کے اور جی بی فوجی چھاؤنی بنے ہوئے ہیں۔ ہر ضلع اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے اور باہر جانے کے بعد فوجی کیمپ ہیں جو بظاہر تو کچھ نہیں کرتے لیکن یہ کیمپ خوف کی ایک علامت ہیں جو مستقبل کی کسی تحریک کو دبانے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ عوام مسلسل مایوسی، تذلیل، بے یقینی اور غلامی کا شکار ہیں۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
پاکستان کے زیر انتظام کشمیرمیں آپ کی جدوجہد اسلام آباد کیخلاف ہے یا مظفر آبادحکومت کے؟
حبیب الرحمن
ہماری جدوجہد کسی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہم اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ آزادی کی یہ لڑائی بنیادی طور پہ قبضہ گیر کے خلاف ہے۔ ہماری سر زمین اور ہمارے عوام کو بے توقیر کر دیا گیا ہے۔ اپنی بے توقیری کے خلاف ہم آبرومندانہ زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو یہ جدوجہد اسلام آباد کی قبضہ گیری کی روش کو ہی چیلنج ہے۔ مظفرآباد والے تو بیچارے گونگے اور تابیدار ہیں جو ان کے دم سے دم بھرتے ہیں۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
کیا آپ پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں؟
حبیب الرحمن
ہم اپنی چھینی گئی ریاست کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم چونکہ پاکستان کی عملداری میں ہیں تو ہمارا مطالبہ ان کی فوجوں کا انخلا ہے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
آپ لوگ مارکسزم،سوشل ازم کی بات کرتے ہیں،مگر دنیا میں اب یہ نعرہ اور سلوگن ختم ہو چکا تو اس تناظر میں آپ اپنی جہد کو کیسے دیکھتے ہیں؟
حبیب الرحمن
دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کو مارکسزم نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ وہ لامحدود اور غیر مشروط حقِ خودارادیت دیتا ہے اس لیے کوئی بھی قوم جب اپنی حاکمیت کی حب الوطنی کی لڑائی لڑ رہی ہوتی ہے تو مارکسزم اس لڑائی کو طاقت ور کرنے کے لیے تحریک میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
سوویت یونین کے بکھر جانے کو دلیل تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا میں جبر اور استحصال ختم ہو گیا ہے۔ نیشنلزم چونکہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ حب الوطنی کا ایک فطری جذبہ ہے جو ہر شخص کو اپنی جنم بھومی سے ہوتا ہے۔ اپنے وطن پہ اپنا اختیار لے لینے کے بعد سوشلزم ہی وہ واحد راستہ ہے جو معاشی آسودگی دے کر ایک نیا سماج اور ایک نیا انسان تخلیق کرتا ہے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
ماؤزے تنگ کا چین اب سامراجی قوت بن چکا ہے،کیا آپ کی جدوجہد اس کے خلاف بھی ہے؟
حبیب الرحمن
چین کی بڑھتی ہوئی طاقت بہت سی اہم تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہے۔ ریجنل طاقت میں توازن کی ایک نئی طرح جنم لے رہی ہے، ریاست جموں کشمیر جغرافیائی اعتبار سے ایک ایسی لوکیشن پر ہے کہ جس پر ہندوستان اور پاکستان دونوں کا برائے راست قبضہ ہے دو طاقت ور ملکوں کے قبضہ میں رہتے ہوئے کیسے ایک تیسرے ملک کے خلاف لڑا جا سکتا ہے یہ ایک اہم سوال ہے،چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو دیکھتے ہوئے خطے میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی اقوام کو کسی ایسی حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ چین ان تحریکوں کی حمایت پر آمادہ ہو ایک ہی وقت میں چو مکھی لڑائی چاروں اطراف سے بند ہو کر لڑنا مشکل ہوتا ہے،ریاست ہائے متحدہ اور چین کی بین الاقوامی کشیدگی آپ کو کسی ایک کیمپ میں دھکے د ے گی جس کے دور رس منفی نتائج سامنے آئیں گے اور یہ آزادی کی تحریکوں کے لیے زیادہ مفید نہیں ہو گا۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
کیا سوشلزم سے بہتر نیشنلزم نہیں ہے،یعنی کشمیری قوم کے لیے جدوجہد اور پھر دیگر مظلوم اقوام کے لیے آواز بلند کرنا؟
حبیب الرحمن
اس کا اوپر ذکر کر چکا ہوں ہر سوشلسٹ کے لیے محبِ وطن ہونا ضروری ہے لیکن ہر نیشنلسٹ کا سوشلسٹ ہونا ضروری نہیں ہے،نیشنلزم تاریخ کے تجربات میں ایک جگہ جا کر تنگ گلی میں داخل ہو جاتا ہے،جہاں وہ استحصالی قوتوں کے ہاتھوں استحصال کا آلہ بن جاتا ہے اس لیے احتیاط اور بچت ضروری ہے،کسی جزباتی کیفیت اور فوری ردِ عمل کے طور پر نہیں بلکہ دوراندیش اجتماعی عقلمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ریاست جموں کشمیر کثیر ال قومی اور کثیرالمذہبی ریاست ہے جس میں مختلف قومیتیں، مذاہب،کلچر اور زبانیں رکھنے والے لوگ آباد ہیں،ان سب کی مشترکہ جدوجہد ہی ایک حقیقی آزادی کی ضامن ہے،خطے کی دیگر آزادی پسند اقوام کے ساتھ ہماری حمایت اور جڑت رہی ہے ماضی میں بھی پونم اور اس طرح کے دیگر مظلوم و محکوم عوام کے اتحاد اور مشترکہ جدوجہد میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی ہمیشہ ان کے ساتھ رہی ہے،وسیع تر آپسی جڑت تمام تحریکوں کے لیے ضروری ہے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
آپ کشمیر میں پاکستانی بربریت کو کیسے بیان کرینگے؟
حبیب الرحمن
قابض ہمیشہ بربریت ہی کرتا ہے انفرادی زندگی سے لیکر اجتماعی زندگی تک ہر چیز تہس نہس کرتا ہے جس کا اجمالی ذکر میں پہلے کر چکا ہوں،خوف پیدا کرنا،ڈرانا،قتل کرنا،ہجرت پر مجبور کرنا،جبری طور پر غائب کرنا فاشزم کا بنیادی اصول ہے،سو اس سب کا پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کو بری طرح سامنا ہے،جس کے خلاف ایک عوامی سطح کی جدوجہد جاری ہے گو کہ ابھی بہت کمزور ہے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
بابا جان کو گلگت بلستان کے عوام کے لیے آواز بلند کرنے پر پاکستان نے جیل میں ڈال دیا،کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ اس جبر پر خاموش ہیں؟
حبیب الرحمن
بابا جان،افتخار کربلائی اور ان کے ساتھیوں کی سزا کے خلاف ہم مسلسل آواز بلند کیے ہوئے ہیں ہم نے ورلڈ وائیڈ فری بابا جان مہم بھی چلائی ہے، جولائی 2015 کو پوری دنیا میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے احتجاجی مظاہرئے بھی کیے گیے تھے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
چین کی سامراجی منصوبے سی پیک،ون بیلٹ ون روڈ اس خطے کے تمام مظلوم اقوام کے لیے تباہی ہیں،کیا کشمیر اور گلگت بلستان بھی اس سے متاثر ہونگے؟اگر ہاں تو اس منصوبے کے خلاف آپکی حکمت عملی کیا ہے؟
حبیب الرحمن
سی پیک منصوبہ یقینی طور پر اثرات مرتب کرئے گا اس کا پہلا دروازہ ہی ہماری ریاست کے حصے گلگت بلتستان سے نکلتا ہے،کمزور سیاسی بیانیہ مظلوم اقوام کو متاثر کرئے گا۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
پیپلز نیشنل الائنس کیا ہے؟گوشنید میں ہے کہ اس میں آئی ایس آئی کے پلانٹڈ لوگ ہیں اور فنڈنگ بھی ہوتی ہے؟
حبیب الرحمن
پیپلز نیشنل الائنس PNA مختلف گروپوں اور جماعتوں کا اتحاد ہے جو پاکستانی مقبوضہ مظفرآباد اور گلگت بلتستان میں زیادہ اختیارات کے ساتھ ایک باوقار اور با اختیار حکومت اور پالیمنٹ کا مطالبہ کرتا ہے،قابض پاکستان کے عمل دخل اور موجودگی کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے،اس طرح کے اتحادوں میں خفیہ اداروں کے لوگ ہمیشہ ہوتے ہیں اس اتحاد میں بھی ہوں گے گو کہ ابھی ان کو شناخت نہیں کیا جا سکتا،اگر یہ اتحاد زیادہ واضح اور زیادہ سیاسی طاقت حاصل کر لیتا ہے تو پھر اس طرح کے لوگوں کی نشاندہی اور شناخت کرنا آسان ہوتا ہے،اس وقت بھی اس اتحاد میں موجود اختلافات اور غیر منظم ہونے کے رویے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگ یقینی طور پر بائیں بازو اور قوم پرستی کے خول میں راہ کر اس اتحاد کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بیانیے اور موقف کے اعتبار سے پی این ائے واضح دوٹوک ٹھوس اور درست پوزیشنیں لیے ہوا ہے،اس اتحاد کو قائم رکھنے اور بہتر کرنے کے لیے متانت اور دور اندیشی سے خفیہ اداروں سے بچایا جا سکتا ہے ورنہ یہ ختم ہو جائے گا،جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کے پی این اے کو کہیں سے فنڈنگ ہوتی ہے تو یہ بالکل درست نہیں ہے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
کیا گلگت بلستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کو اپنی آزادی کے لیے مزاحمتی تحریک شروع کرنا چائیے؟
حبیب الرحمن
پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام اپنی سرزمین اور اپنے وسائل پر اختیار حاصل کرنے کے لیے مسلسل سیاسی طور پر مزاحمتی تحریک چلا رہے ہیں جو وسیع تر جمہوری جدوجہد کا حصہ ہے قبل از وقت اور جذباتی ردِ عمل کے طور پر مسلح جدوجہد تحریکوں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دیتی ہے ایک وسیع عوامی سیاسی جدوجہد ضمانت ہے مزاحمتی تحریک کی جس کے ابھی ہم ابتدائی اسٹیج پر ہیں،ایک مراحلہ آئے گا عوامی مسلح جدوجہد کا جو غلام و محکوم اقوام کے لیے نا گزیر ہے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کے کمیونسٹ آپکی تحریک کے بارے میں خاموش ہیں اور بابا جان جیسے سوشلسٹ رہنماکی رہائی کے لیے آواز نہیں اٹھاتے؟
حبیب الرحمن
ہندوستانی کمیونسٹ ہندوستانی ریاست کی خواہش اور مفادات سے باہر نہیں جاتے چونکہ وہ ریاست کے ساتھ بہت سارئے سمجھوتے کر چکے ہیں،اور پارلیمانی سیاست میں جا کر اپنا وقار اور ساکھ کھو رہے ہیں،جب کوئی تحریک یا نظریہ بنیادی اصولوں پر خاموش ہو یا سمجھوتا کر لے تو تاریخ اس کو پاتال میں پھینک دیتی ہے۔البتہ ہندوستان میں نئی ابھرنے والی بائیں بازو کی تحریکیں زیادہ بہتر اور ریڈیکل محسوس ہوتی ہیں جو آنے والے وقت میں کوئی بہتر کردار ادا کر سکتی ہیں۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
بلوچستان کے لوگ پاکستانی ظلم کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں آپ لوگ اس عمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
حبیب الرحمن
بلوچ عوام کی جدوجہد اور لڑائی انصاف پر مبنی آزادی کی لڑائی ہے اور ہم اس منصفانہ لڑائی میں بلوچ عوام کے ساتھ ہیں۔اور توقع کرتے ہیں کہ جس بے باک طریقے سے ان کے ساتھ کھڑئے ہیں وہ بھی ہماری آزادی کی حقیقی تحریک کے حامی اور مدد گار ہوں گے،موجودہ وقت میں بلوچ تحریک کو ہم اس ریجن کی سب سے مضبوط سامراج دشمن اور عوام دوست تحریک کہہ سکتے ہیں۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
کیا پاکستان کے زیر تسلط مظلوم اقوام کو مشترکہ جدوجہد کرنا چائیے؟اگر ہاں تو اس حوالے کبھی آپ لوگوں نے کوئی پیش رفت یا حکمت عملی بنائی ہے؟
حبیب الرحمن
مظلوموں اور محکوموں کو ہمیشہ ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اس خطہ کی تمام مظلوم اقوام اور عوام کو مل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنا چاہیے،اس خطے میں مظلوم اقوام کے کسی بھی طرح کے اتحاد کو ہم خوش آمدید کہیں گے،ماضی میں بھی پونم طرز کے اتحادوں کے ساتھ ہمارئے گہرئے روابط رہے ہیں،مشترکہ سیاسی جدوجہد میں ہم شریک رہے ہیں اور شریک رہیں گے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
کیا کشمیر پاکستان کے قبضہ سے آزاد ہو سکتا ہے؟
حبیب الرحمن
۔۔۔ جی آزاد ہو سکتا ہے،لیکن لمبی اور طویل جدوجہد کرنا پڑئے گی،شارٹ کٹ کوئی راستہ نہیں ہے۔
وویک سنہا/ دوستین بلوچ
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان مخالف کشمیریوں کو اسلام آباد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کس طرح کی ظلم و بربریت کا سامنا ہے؟
حبیب الرحمن
اس کا اوپر تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں،محاصرئے میں رہنے والوں کی اپنی کوئی رائے،کوئی حیثیت کوئی ملکیت نہیں ہوتی،اس سے بڑی بربریت اور کیا ہو گی کہ آپ جو سوچتے ہیں جو دیکھتے ہیں محسوس کرتے ہیں وہ بول نہ سکیں سوال نہ اٹھا سکیں اسلام دشمن اور غدار کا لیبل ہر اس شخص پر چسپاں ہو جو اپنی سر زمین اور اپنے عوام سے محبت کا اظہار کرے۔